لاہور: ہائی کورٹ نے مولانا فضل الرحمن کا دھرنا روکنے، فوجداری مقدمہ درج کرنے اور بغاوت کی کارروائی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی ہے۔
جسٹس امیر بھٹی نے وکیل ندیم سرور اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ احتجاج اور دھرنوں کو روکنا عدالت کا نہیں حکومت کا کام ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ دھرنوں اور مارچ سے بنیادی حقوق سلب نہیں ہوتے اور آئین پاکستان بھی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی قسم کی ملک منافی سرگرمیوں کو روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
عدالت کو وفاقی حکومت کے وکیل اسرارالہی ملک نے تحریری طور پر آگاہ کیا کہ مولانا فضل الرحمن کی دھرنا کے لیے بنائی گئی ملایشین فورس کو بین کر دیا گیا ہے۔ جبکہ دھرنے کے لیے اصول ضوابط بھی طے کر دیے گئے ہیں۔
حکومت پاکستان کی جانب سےعدالت کو یقین دلایا گیا کہ قانون ہاتھ میں لینے پر وفاقی حکومت کارروائی کرے گی۔
درخواستگزار وکیل ندیم سرور نے مؤقف اپنایا کہ مولانا فضل الرحمن الیکشن ہارنے کے بعد اور مدرسہ اصلاحات سے بچنے کے لیے دھرنا دے رہے ہیں، آئینی گورنمنٹ کو آئین کے تحت 5 سال کی مدت پوری کیے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ آئینی طریقے سے ہٹ کر گورنمنٹ کو ہٹانا آئین کے آرٹیکل 2-Aاور 17 کی خلاف ورزی ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن نے دھرنے کی حفاظت کے نام پر پرائیویٹ آرمی بنا لی ہے جو کہ غیر قانونی ہے ۔
عدالت سے استدعا کی گئی کہ دھرنا آئین کے 3 آرٹیکل 2a 9،15،16،19 کی خلاف ورزی ہے اور مولانا فضل الرحمن کو دھرنے سے روکا جائے۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ مولانا فضل الرحمن کی پرائیویٹ آرمی کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیا جائے۔
درخواستگزاران کے وکلا نے جواب الجواب داخل کرنے کے لیے مہلت طلب کی۔ عدالت نے درخواستوں پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی ہے۔