’عمران ٹرمپ ملاقات سے افغان امن عمل کو فائدہ ہونا مشکل ہے‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات سے افغان امن عمل کو فائدہ ہونے کا امکان کم ہے۔

پروگرام ویوزمیکرز میں زریاب عارف کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجدشعیب نے کہا کہ جب دونوں رہنما ملاقات کریں گے تو اچھے نتائج بھی نکل سکتے ہیں لیکن اس حوالے سے امکان کم ہے کہ کوئی مثبت پیشرفت ہوسکتی ہے۔

سئینر تجزیہ کار افتخار احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ سمیت کسی ملک کو ایسی یقین دہانی نہیں کراسکتا جس سے مستقبل میں پاکستان کا نقصان ہو۔

ایران کے خلاف استعمال ہونا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے خود کشی ہوگی۔ بھارت کے مطالبات بھی تسلیم نہیں کیے جاسکتے۔

انہوں نے کہا کہ ہم امریکہ کی وجہ سے معاشی مشکلات کاشکار ہیں اور آگےاس پالیسی پر عمل کرنا مشکل ہے۔

تجزیہ کار مشرف زیدی نے کہا کہ پاکستان کے مفاد میں یہ بہتر ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کرنے کی حامی نہ بھرے جس کا مستقبل میں ملک کو نقصان ہو۔

سیئینر تجزیہ کار عامر ضیاء کی رائے تھی کہ امریکہ کا پاکستان پر دباو ہے کہ افغان طالبان کو مجبور کرے کہ وہ جنگ بندی کا اعلان کریں تاہم امریکہ کی ماضی میں اپنی یہ پالیسی رہی ہے کہ بات چیت کے ساتھ لڑائی بھی جاری رکھنی ہے تو اب طالبان پاکستان کی بات کیوں مانیں گے۔

سیئینر تجزیہ کار ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ اگر پاکستان اور امریکہ کی افواج کے درمیان تعلقات بڑھے تو افغان امن عمل کے حوالے سے کوئی پیشرفت ہوسکتی ہے ورنہ ممکن نہیں ہے۔

وزیراعظم کے دورے سے متعلق سوال کے جواب میں ناصربیگ چغتائی نے کہا کہ پاک امریکہ تعلقات کو ملاقات کے ذریعے بہتر کیا جاسکتا ہے، دونوں کا مزاج مل گیا تو تعلقات میں بہتری آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان سے فاتحانہ اور باعزت واپسی چاہتا ہے جبکہ پاکستان کی ترجیح معیشت ہے۔

افتخاراحمد نے کہا کہ وزیراعظم نے دورہ کرکے اچھا کیا۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان جو تحفظات موجود ہیں وہ سیاسی حکمرانوں کی ملاقاتوں سے دور نہیں ہوسکتے ہیں۔

امجد شعیب کا کہنا تھا کہ امریکہ کو جب پاکستان کی ضرورت پڑے تو تعلقات بہتر کرلیتا ہے اور ضرورت ختم ہوتی ہے وہ خراب کرلیتا ہے۔ امریکہ کی ترجیح افغانستان سے انخلاء ہے اور پاکستان اس میں زیادہ کردار ادا نہیں کرسکتا ہے۔

عامر ضیاء نے اپنے تجزیے میں کہا کہ وزیراعظم اور امریکی صدرکے درمیان ملاقات سے بڑے اعلان کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ امریکہ اور پاکستان کے مفادات خطے میں مختلف ہیں۔ افغانستان کے معاملے پر پاکستان کا اثرمحدود ہے۔

حزب اختلاف وزیراعظم کے بقول این آر او کے حصول کے لیے متحد ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں افتخار احمد نے کہا کہ عمران خان وزیراعظم ہیں انہیں سیاسی جماعت کے سربراہ کے طور پر تقریر نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے جن مسائل پر بات کی وہ عوام کے نہیں ہیں۔

امجد شعیب کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف تقسیم ہے اس میں مولانا فضل الرحمان کی ترجیحات الگ ہیں جبکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کچھ اور چاہتے ہیں۔ یہ دوبارہ الیکشن چاہتے ہیں تاکہ ان کے مسائل میں کمی آجائے۔

عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنے حامیوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ این آر او کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اپوزیشن جماعتوں کا پہلی بار احتساب ہورہا ہے اس لیے وہ کسی ڈیل کی خاطر متحد ہیں

ناصربیگ چغتائی نے کہا کہ وزیراعظم نے خود الزام لگایا اور خود ہی فیصلہ کرلیا ہے لیکن سیاست میں ایسا نہیں ہوتا، اپوزیشن کو بھی جگہ دینی پڑتی ہے۔

مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ جس طرح حزب اختلاف کو دبایا جارہا تھا اس کے ردعمل میں ان کا متحد ہوجانا فطری عمل ہے


متعلقہ خبریں