میانمار: سوچی حکومت بھی مودی کے نقش قدم پر چل پڑی

سوچی حکومت بھی مودی کے نقش قدم پر چل پڑی

میانمار: نوبل انعام یافتہ خاتون سیاستدان اونگ سان سوچی کی حکومت بھی بھارت کی انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مظلوم مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم سے پوری دنیا کو بے خبر رکھنے کے لیے ’اوچھے‘ ہتھکنڈوں کے استعمال پر اتر آئی ہے۔

برما میں بے گناہ اور مظلوم روہنگیا مسلمانوں پر جو مظالم موجودہ حکومت کے دور میں ڈھائے گئے ہیں وہ چنگیز خان اور ہلاکو خان کے مظالم کو بھی ’شرما‘ گئے ہیں۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق جس طرح بھارت کی قابض افواج مقبوضہ وادی کشمیر میں مظلوم کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے اپنے انسانیت سوز مظالم سے دنیا کو ’بے خبر‘ رکھنے کے لیے علاقے میں تسلسل کے ساتھ انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بند کرتی ہے بالکل اسی طرح ’سوچی حکومت‘ نے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ’راکھین‘ میں انٹرنیٹ کی سہولت معطل کردی ہے۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق گزشتہ جمعہ سے انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے علاقے کے لوگوں کا پوری دنیا سے رابطہ تقریباً کٹ کر رہ گیا ہے اور وہاں مقیم مظلوم مسلمان دنیا کو یہ بتانے کے بھی قابل نہیں رہے ہیں کہ ان کے شب و روز کیسے گزررہے ہیں؟ اور ان پرکس نوعیت کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں؟

میانمار میں جب مظلوم مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تو سب سے زیادہ ’بری‘ خبریں ریاست راکھین سے آئیں جس کی وجہ سے عالمی ذرائع ابلاغ میں اسے شہہ سرخیوں میں جگہ ملی جو برما کی حکومت اور ان کے افسران کے لیے ہزیمت، ذلت اور شرمندگی کا سبب بنیں۔

دنیا میں آباد ’انسانوں‘ کی بہت بڑی تعداد نے ڈھائے جانے والے مظالم کی وجہ ہی سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ برما کی خاتون حکمران سے نوبل انعام واپس لیا جائے۔

نوبل انعام یافتہ اونگ سان سوچی کی حکومت نے اب اس کا ’حل‘ یہ نکالا ہے کہ علاقے میں انٹرنیٹ سروس ہی بند کردی ہے تاکہ دنیا کو معلوم ہی نہ ہوسکے کہ مظلوموں پر کیا گزررہی ہے اورو ہ کس حال میں ہیں؟ اس طرح سوچی حکومت نفرت انگیز ’سیاست‘ کے ’پرچارک‘ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی  پیروکار بن گئی ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق برما کی ریاست راکھین میں آباد مسلمانوں کی تعداد تقریباً دس لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔


متعلقہ خبریں