لاہور ہائیکورٹ:پنجاب کے مجوزہ واٹرایکٹ کے خلاف لارجر بنچ بنانے کی سفارش

کورونا وائرس کو نہ ماننے والے شہری پر 2 لاکھ روپے جرمانہ

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے پنجاب کے مجوزہ واٹر ایکٹ کے خلاف درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد لارجربنچ بنانے کی سفارش کرتے ہوئے کیس کی فائل چیف جسٹس کو بھجوا دی۔

عدالت نے پنجاب کے مجوزہ واٹر ایکٹ کے خلاف سید کمال حیدر ایڈووکیٹ کی درخواست کی  سماعت کے دوران  ریمارکس دیے کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے، حکومت کو قانون سازی بارے حکم دے سکتے ہیں۔

جسٹس جواد حسن نے کہا کہ ملک میں تیل نکلا نہیں صرف پانی ہی رہ گیا ہے، اسے ہی بچا لیں۔ پاکستان کے مستقبل کے لئے کام کرنا ہو گا ،پانی کو ضائع کیا جارہا ہے ۔

جسٹس جواد حسن نے کہا ڈیم نہیں بننے دیا اب زیرزمین پانی کے تحفظ کیلئے ہی کچھ کر لیں۔ہائیکورٹ میں اسی نوعیت کےدیگر کیسز میں کیا بنا ؟

وکیل نے جواب دیا کہ دیگر کیسز زیر سماعت ہیں لیکن ابھی کسی کیس کاحتمی فیصلہ نہیں ہوا۔

جسٹس جواد حسن نے کہا کہ امریکی عدالتوں کے فیصلے مثال کے لیے پیش کیے جائیں ، عدالت کے دائرہ  اختیار بارے معاونت کی جائے۔

اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اپنے دلائل میں کہا کہ اس حوالے سے ابھی بل ایکٹ پاس نہیں ہوا ہے ،اس لیے  درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ محکمہ آبپاشی کا گراؤنڈ واٹر کے تحفظ سے کیا تعلق  ہے؟ آپ کی حکومت کا ذہن واش کرتا ہوں۔ قانون سازی کریں گے تو ہم اس کو دیکھنے کے لیےبیٹھے ہیں۔ گراؤنڈ واٹر کے حوالے سے سیکرٹری کو حکم دیا تھا، کوئی کا رروائی نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیے:لاہور: صارفین کو پانی ضائع کرنا مہنگا پڑگیا

جسٹس جواد حسن نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو مخاطب کرکے کہا کہ سپریم کورٹ کی ججمنٹ پڑھ لیں، کہا گیا ہے کہ عدالت رولز بناسکتی ہے۔

پنجاب حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل شاہد سلیم عدالت میں  پیش ہوئے۔

451 صفحات کی درخواست میں چیف سیکرٹری پنجاب سمیت 18 افسران کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ مجوزہ واٹر ایکٹ غیرملکی قانون کی کاپی پیسٹ ہے اور  آئین سے بھی متصادم ہے۔


متعلقہ خبریں