آزاد کشمیر کی ڈائری

آزاد کشمیر کا 5134 اسکوائر کلومیٹر پر مشتمل علاقہ ریاست پاکستان کے تحت آتا ہے۔ اس کی آبادی 40 لاکھ سے زائد ہے، اس کے تین ڈویژنز مظفرآباد، راولاکوٹ اور میرپورہیں جبکہ 10 اضلاع، 27 تحصیلیں اور 182 سے زائد یونین کونسلز ہیں۔ آزاد کشمیر میں باقاعدہ پارلیمانی نظام قائم ہے اور یہاں کی قانون ساز اسمبلی 49 نشستوں پر مشتمل ہے جس میں 29 انتخابی حلقے آزاد کشمیر سے ہیں جبکہ 12 نشستیں ان کشمیریوں کے لئے مختص ہیں جو 1947 سے لے کر اب تک مختلف ادوار میں اور مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے پاکستان کے طول و عرض میں آباد ہوئے، اس کےعلاوہ سات مخصوص نشستیں ہیں اورایک بیرون ملک کشمیریوں کے لئے ہے۔

آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں کسی بھی سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے کل 26 نشستیں درکارہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں پھیلے ہوئے مہاجرین کی نشستیں کلیدی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں نو نشستیں صرف پنجاب کے مختلف علاقوں پر مشتمل ہوتی ہیں، ایک کے پی جبکہ 2 نشستیں صوبہ سندھ سے حاصل ہوتی ہیں۔

آزاد کشمیراور وفاق کے انتخابات میں کم و بیش تین سال کا فرق ہے گویا وفاق میں نئی حکومت کی تشکیلل کے تین سال بعد آزاد کشمیر میں انتخابات ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ ایک سیاسی روایت سی بن چکی ہے کہ جو جماعت وفاق میں برسراقتدار ہوتی ہے وہی آزاد کشمیر کے انتخابات بھی جیت جاتی ہے۔ 2008 میں پیپلز پارٹی نے انتخابات میں فتح حاصل کی تو 2011 میں کشمیر میں بھی انہی کی حکومت آئی۔ اسی طرح 2013 میں وفاق میں مسلم لیگ ن مسند اقتدار پر براجمان ہوئی توآزاد کشمیر میں ہونے والے 2016 کے انتخابات میں بھی یہی جماعت جیت گئی۔  2016 میں آزاد کشمیرمیں حکومت بنانے کے لیے ن لیگ کو 26 نشستیں درکار تھیں مگر انہوں نے 31 براہ راست نشستیں جیت لیں اورآٹھ مخصوص نشستوں میں سے بھی سات ان کے نام ہوئیں۔

وزیراعظم آزاد کشمیرنے اپنے گزشتہ 2 سالہ دور حکومت میں اب تک بہت سے ایسے مشکل فیصلے کیے ہیں جو شاید کسی اور جماعت کا وزیراعظم نہ کر پاتا۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ کابینہ کو مختصر رکھنا تھا، پہلی بارآزاد کشمیر کی کابینہ میں صرف 12 وزراء تھے جبکہ اس سے پہلے 26 نشستیں جیتنے والی حکومتیں کی کابینہ 26 وزرا پر مشتمل ہوا کرتی تھیں، گویا حکومت بنانے والا ہرایم ایل اے ریاستی وزیر ضرور ہوتا تھا۔

سیاسی ماہرین کے مطابق مختصر کابینہ کی تشکیل بہت دل گردے والا کام تھا کیونکہ کشمیر کی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کوئی نئی روایت نہیں ہے لیکن جیسے تیسے کرکے حکومت نے دو سال اپنی کابینہ صرف بارہ  وزراء سے ہی چلائے رکھی البتہ حال ہی میں جب آزاد کشمیر میں عدم اعتماد کی افواہیں گردش کرنے لگیں تو ہمارے دلیر وزیراعظم کے پاؤں بھی لڑکھڑا گئے اور اپنی وزارت عظمیٰ بچانے کے لیے انہیں اپنے مشکل فیصلوں سے ہٹنا پڑا۔ چنانچہ مہاجروں کی نشستوں پر کامیاب امیدواروں سمیت آٹھ نئے ممبران اسمبلی آزاد کشمیر کابینہ میں شامل کرلیے گئے۔ عدم اعتماد کے بادل تو برسے بغیر گزر گئے لیکن وزارتوں کی تقسیم پر اب بھی شکووں اور ناانصافیوں کی آندھیاں چل رہی ہیں۔

مالیات پرمضبوط گرفت رکھنے والے ممبراسمبلی چوہدری سعید وزارت خزانہ کے لئے موزوں ترین امیدوار تھے لیکن انہیں وزیراسپورٹس یوتھ اینڈ کلچربنا دیا گیا، اسی طرح سابق سینئر وزیرراجہ عبدالقیوم کو اس دفعہ کم بجٹ والی وزارت اوقاف و اموردینیہ دے دی گئی۔ جن وزرا کے پاس دو وزارتیں تھیں ان سے ایک ایک لے گئی۔ ابھی کچھ ایم ایل ایز وزارتوں کے بغیر بھی ہیں اور یہ دونوں وجوہات مستقبل میں وزیر اعظم کے لئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔

وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت کی مدت ختم ہونے جا رہی ہے۔ نئی حکومت کے آنے تک کا یہ وقفہ وزیراعظم آزاد کشمیر کے لئے ایک چیلنج بن سکتا ہے۔ اگر وفاق میں مسلم لیگ ن کی جگہ کسی اور جماعت کی حکومت آئی تو ایسی صورت میں بھی آئندہ تین سالوں میں آزاد کشمیر کی سیاست میں اتار چڑھاؤ آتے رہیں گے۔

ٹاپ اسٹوریز