عمران خان فرنٹ سیٹ پر

خبر ہونے تک

اٹھارہ ماہ بعد وزیراعظم عمران خان نے پہلی بار وزرا اور انتظامی افسران کو واضح طور کہا ہے کہ نہ صرف اب مہنگائی نہ ہونے پائے بلکہ اس میں کمی بھی کی جائے۔ اس ضمن میں عوام میں یہ بات گردش کرنے لگی ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں بڑی کمی کی جارہی ہے، فروری میں پیدا کیے جانے والے مصنوعی بحران کے بعد مارچ میں پیدا ہونے والے حقیقی سیاسی بحران کا شاید وزیراعظم کو ادراک ہوگیا ہے کہ انھیں حقیقی صورت حال سے دور رکھنے کے پرانے حربے اختیار کیے جارہے ہیں، احتساب کے نام پرگرفت میں لیے جانے والے لوگ ایک ایک کرکے آزاد ہو رہے ہیں، نیب قوانین تبدیل کیے گئے ہیں، عدالتوں میں وزارت قانون اور نیب ایک صفحہ پر نظر نہیں آتی۔ سابق اٹارنی جنرل انور منصور کا استعفٰی اسی کی ایک کڑی ہے۔ جسٹس فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس اور اس میں نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید کا ریفرنس میں حکومت کے موقف کے خلاف کھڑا ہونا بھی عمران حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ماہ جنوری اور فروری میں پاکستانی عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی جس اذیت سے گزرے اس کا ازالہ اب تک نہیں ہوسکا، تمامتر دعووں اور اعلانات کے باوجود نہ ہی قیمتیں قابو میں لائی جاسکی ہیں اور نہ ہی مجرمان کو گرفت میں لیا جاسکا ہے۔

ملک میں مصنوعی بحران اور انتظامی نظام کا بریک ڈاؤن جاری ہے، ایسے میں کراچی بندرگاہ کے علاقے میں پراسرار گیس کا اخراج اور لوگوں کی ہلاکتیں ایک سوالیہ نشان بن کر سامنے آ گئی ہیں اور اب کورونا وائرس کے حوالے سے بات پھیلائی جارہی ہے کہ یہ ایران اور افغانستان کی جانب سے پاکستان کے دروازے پر دستخط دے رہا ہے، کورونا وائرس کے حوالے سے کئی ”سازشی نظریے“ گردش کررہے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس نے پوری دنیا کو اقتصادی طور پر متاثر کیا ہے۔ پاکستان اور چین کے حالیہ چند برسوں خاص طور سے سی پیک کے بعد اقتصادی سطح پر جو تعلقات فروغ پائے اس کے نتیجے میں پاکستان بنیادی ضرورتوں کے لیے بھی چین کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے لہٰذا چین میں اقتصادی اثرات سے پاکستان براہِ راست متاثر ہورہا ہے۔

پاکستانی حکومت جو پہلے ہی منافع خوراور ذخیرہ اندوز مافیا کے ستم کا شکار ہے اس کے لیے یہ بڑا سوال ہے کہ  ان اثرات سے خود کو کیسے نکالے، خدانخواستہ ایران اور افغانستان سے آنے والی اطلاعات کے اثرات نمودار ہوئے تو صورتحال سنگین تر ہونے کا خدشہ ہے، اس سے نمٹنے کے لیے حکومت کی استعداداور اہلیت کیا ہے؟ یہ بھی ایک سوال ہے۔ کراچی بندرگاہ پر گیس کا اچانک پھیلنا،اموات کا ہونا اور پھر اچانک سب ٹھیک ہوجانے کے گرد بھی ”سازشی نظریے“ کے تانے بانے بنے جارہے ہیں اس تمام تر صورتحال کے ادراک کے بعد لگتا ایسا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اب حقیقی معنوں میں ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے کا فیصلہ کرلیا ہے،ایک جانب یہ صورت حال خوش کن ہے لیکن دوسری جانب تشویش یہ ہے کہ ان کے اپنے ساتھی بھی اب ”دوسری سوچ“ کی جانب مائل ہورہے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ ایک طرف مارچ کے مہینے میں عمران خان ایک حقیقی وزیراعظم کے طور پر متحرک ہوں گے تودوسری جانب اپوزیشن وزیراعظم عمران خان کے خلاف صف بندی میں مصروف ہو گی۔ نوازشریف کی ضمانت میں توسیع نہ کرنے اور مریم نواز کو باہر جانے کی اجازت نہ دینے کے فیصلے عمران خان کے عزائم کا کھلا اظہار ہیں، حکومت اپوزیشن محاذآرائی میں عمران خان نے پہل کردی ہے، جسٹس فائز عیسٰی ریفرنس میں بھی حکومتی موقف کی حمایت عمران خان کے اسٹیرنگ سنبھالنے کی طرف اشارہ کرتی ہے تاہم ملک کے معروضی حالات عمران خان کی سوچ کا ساتھ دیتے نظر نہیں آتے جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس نے چین ہی کو متاثر نہیں کیا اقتصادی طور پر پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کا دباؤ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے، منافع خور مافیا بھی قابو سے باہر ہے، ایسے میں مہنگائی پر قابو پانا، بجلی، گیس، پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کے اقدامات حکومت کے لیے مشکلات ہی پیدا نہیں کریں گے بلکہ حکومت کی راہ میں رکاوٹیں بھی پیدا کریں گے اور یقیناً اپوزیشن اس کا پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ اس امرکا خدشہ بھی ہے ”سیاسی بٹیرے“ جو پہلے ہی دوسری سوچ کی طرف گامزن ہیں حسب روایت اڑنے کی کوشش کریں اور نیا بسیرا ڈھونڈیں، لہٰذا اب وزیراعظم عمران خان نے جب ڈرائیونگ سیٹ سنبھال ہی لی ہے تو انھیں روایتی طریق کار سے ہٹ کر انقلابی طرز اختیار کرنا ہوگا اور اس کے لیے اگر دیرینہ ساتھی، پارٹی کے فنانسر اور بیوروکریسی بھی لپیٹ میں آتی ہے تو اس کی پرواہ نہیں کرنا ہوگی۔

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن مسلسل ایک ہی اعلان کررہے ہیں کہ انھیں جو یقین دہانی کرائی گئی تھی اس پر عمل کرنے کا وقت آگیا ہے، اس کے لیے انھوں نے دس مارچ سے تحریک چلانے کا اعلان بھی کر دیا ہے، ساتھ ہی سفارت کاروں سے ملاقاتیں ان کی جانب سے لابنگ کیے جانے کے مترادف قراردی جا رہی ہیں، مولانا فضل الرحمٰن کی یہ تحریک بھی حکومت کے لیے بارِگراں سے کم نہیں ہوگی۔ ادھر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری حکومت کو مزید وقت نہیں دینا چاہتے وہ بھی اسی سال انتخابات کی باتیں کررہے ہیں، اب نواز شریف اور مریم نواز کے معاملات نے بھی مسلم لیگ ن کو مولانا فضل الرحمٰن اور بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ کھڑا ہونے پر مجبور کردیا ہے، کورونا وائرس، گیس کی لیکیج ہوسکتا ہے بیرونی عناصر کی کارستانی یا قدرت کی جانب سے کوئی عذاب ہو لیکن اپوزیشن کی تحریک،حکمت عملی اورحکومت کے اندر توڑپھوڑ خالصتاً اندرونی معاملہ ہے اور اندر ہی سے حمایت بھی ہے لہٰذااس صورتحال کا نتیجہ خیر کی صورت میں نکلتا نظر نہیں آرہا بہرحال وزیراعظم عمران خان جب فرنٹ سیٹ سنبھال ہی لی ہے توایکسیلیٹر پر پاؤں کا دباؤ تو بڑھانا ہی پڑے گا۔اب یوٹرن کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ٹاپ اسٹوریز