روایتی سیاست اور روایتی حکومت کے حوالے سے لکھے گئے کالم پر ایک سینئر صحافی دوست کا تبصرہ تھا ”سب ایسا ہی چلے گا“ واقعی ”سب ایسا ہی چل رہا ہے“گزشتہ چند ماہ سے ملک کے عوام جس خوفناک مہنگائی،بے روزگاری، چھانٹیاں، برطرفیاں اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے عذاب سے گزر رہے ہیں اس میں کوئی کمی نہیں آئی، اس پر حکمرانوں کا یہ زور کہ ”چھوڑیں گے نہیں،لوٹ مار کرنے والوں،ذخیرہ اندوزوں کا پتہ ہے انھیں کیفر کردار تک پہنچائیں گے،پاکستان آگے کی طرف جارہا ہے۔“ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ قرضوں کا حجم بڑھتا جارہا ہے، آئی ایم ایف بنیادی ضرورتوں کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے پر مسلسل زور دے رہا ہے،15 ارب کی سبسڈی کے باوجود مہنگائی ختم نہیں ہوئی،روزگار کے نئے مواقعے دیکھنے کو نہیں، چھانٹیاں برطرفیاں مسلسل جاری،اقتصادی ماہرین کے مطابق جی ڈی پی دو فیصدسے سے زیادہ نہیں ہوگی۔اس کا مقصد عوام کو ابھی مزید عذاب سہنے کے لیے تیاررہنا ہوگا، تیار نہ بھی رہیں سہنا تو پڑے گا۔ اس سے بچنے کا کوئی راستہ نہ نظر آرہا ہے نہ ہی دکھایا جارہا ہے، ملک لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے۔
حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ دو ماہ کے دوران مافیاز نے من مانی کرکے عوام کو جتنا نچوڑنا تھا اس سے زیادہ ہی نچوڑلیا اب حکومت نے بھی یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعہ 15ارب روپے کی جس سبسڈی کا اعلان کیا ہے وہ بھی مافیاز کی جیب جائیگی کیوں کہ یوٹیلٹی اسٹورز کے لیے روز مرہ کی اشیاء ان ہی سے خریدی جائے گی، یوں انھیں اپنی من مانی قیمتیں قانونی طور پر مل جائیں گی اور عوام کو 100 روپے فی کس کی جو سبسڈی ملنی ہے وہ بھی اس سے کئی گنا زیادہ سود کے ساتھ آئی ایم ایف کے دباؤ پر پیٹرول گیس کی قیمتوں میں اضافے سے وصول کرلی جائے گی، مافیاز نے اشیاء صرف کی قیمتوں جو 40 سے100 فیصد اضافہ کیا تھا تمام تر دعووں کے باوجود اپنی اصل قیمتوں پر واپس نہیں آئیں، حکومت نے سبسڈی دینے کے بعد بھی اصل قیمتوں میں 10 سے20 فیصد اضافے کی سرکاری مہر لگادی لیکن عام دکانوں پر قیمتیں اب بھی قابو سے باہر ہیں، صاف ظاہر ہے مافیاز اب بھی من مانیاں کررہی ہے۔
اس سارے گورکھ دھندے میں نقصان میں عوام ہی رہیں ہیں اور رہیں گے عوام کو سہولتیں پہنچانے کے جن بنیادی باتوں کی ضرورت ہے اس پر حکومتوں کی کوئی توجہ نہیں، وجہ صاف ظاہر ہے کہ حکومت میں بیٹھے لوگ زمیندار،صنعت کا ر اور تاجر ہیں جن کا بنیادی اصول اپنی دولت میں اضافہ کرنا ہے اور حکومتوں کے سہارے یہ اضافہ مرضی کے مطابق حاصل کیا جاتا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم صنعت اور تجارت سے پیسہ کمانے کے بجائے عوام کی بنیادی ضرورتوں سے پیسہ کماتے ہیں، دنیا میں بنیادی ضرورت کی قیمتیں انتہائی سستی اور ہمارے ہاں سب سے مہنگی ہوتی ہیں۔وزیراعظم اور وزرا میڈیا پر غصہ اتاررہے ہیں کہ وہ غلط بیانی کررہا ہے،کھلے عام جو کچھ ہورہا ہے کیا میڈیا وہ نہ دکھائے،اسی میڈیا نے سابقہ حکمرانوں کو بھی بے نقاب کیا تھا اس کا پھل پی ٹی آئی کو حکومت کی شکل میں ملا اور میڈیا بالخصوص میڈیا ورکرز کو برطرف،چھانٹی اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں اس کی سزا ملی۔
کیا حکومت نے کبھی وزارت شماریات، وزارت زراعت، وزارت صنعت،وزارت تجارت سے پوچھا ہے کہ ملک میں کیا اور کتنا پیدا ہورہا ہے اور ہماری ضرورت کیا ہے، شاید پوچھا ہو اور ان وزارتوں نے بتایا ہو لیکن لگتا یوں ہے کہ صرف اور صرف ذاتی مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں، کبھی اس کی تحقیقات کی گئیں کہ کپاس کی زمین پر گنّا کیوں اگایا گیا کپاس جو ملک کی سب سے قیمتی اور نقد فصل تھی آج ملک اس کے لیے دوسروں کا محتاج ہے۔ کیا یہ تحقیقات کی گئیں کہ ملک کی ضرورت کا آٹا اور چینی کیوں برآمد کیا گیا، کبھی ذمہ داروں کا تعین ہوا، کسی کا کوئی احتساب ہوا؟ جہانگیر ترین اور خسرو بختیا ر کو کلین چٹ دینا وزیراعظم کا اپنا معاملہ ہے، مان لیا جائے ان کا اس بحران میں کوئی ہاتھ نہیں لیکن کسی کا تو ہے جس کو سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا۔کیا یہ کبھی سوچا گیا ہے کہ ہماری اشیاء کی ہمارے ملک میں قیمتوں کا تعین آئی ایم ایف کیوں کرتا ہے اور پٹرول،گیس بجلی ہی کیوں آئی ایم ایف کا ہدف ہوتی ہیں،اب سوچنا ہوگا ملک کی سالمیت بچانے کے لیے سوچنا ہوگا.
سبسڈی، انکم سپورٹ کارڈ، ہلیتھ کارڈ اور راشن کارڈ یہ سب ایک حد تک مناسب ہیں لیکن یہ بھی یاد رہے کہ ایسے اقدامات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ ایک پس ماندہ بلکہ انتہائی پس ماندہ قوم ہیں آپ کے ملک میں اشیائے ضروریہ کی کمی ہے آپ کا ملک پستی کی طرف جا رہا ہے،لیکن ایسا نہیں ہے آپ کے ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے کمی ہے تو بہتر حکمرانی کی ۔ضرورت ہے ایسی حکمرانی کی جو مافیاز کو روک سکے، انھیں جیل بھیج سکے، ایسا نظام تشکیل دے سکے اور چلا سکے جس سے عوام کا بھلا ہو۔
آج کے دور میں بھی ایک بڑی مثال موجود ہے جس نے عوام کے لیے اقدامات کیے، بھارت میں دہلی کی حکومت بنانے والی عام عوام پارٹی کی ہے جس نے عوام کے لیے کسی سبسڈی کے اعلان کے بجائے اپنی ریاست میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم سے کم کرکے براہِ راست فائدہ عوام کو پہنچایا اب وہ بجلی مفت کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، انتخابات میں ریاست کی 90 فیصد نششتیں جیتنے میں ان کا یہ اقدام سرِفہرست ہے، بھارت کی حکمراں بی جے پی چند نششتیں ہی حاصل کرپائی، بی جے پی کو اتنی بڑی شکست کسی اور ریاست میں نہیں ہوئی اس کی وجہ صرف ایک ہی ہے، عوام کی حکومت عوام کے لیے۔ وہاں مافیاز کا کوئی گزر نہیں۔کیا ایسا کوئی کردار ہمارے حکمراں ادا کر پائیں گے، میڈیا میں بیانات داغنے کے بجائے عوام کو سہولتیں پہنچانے کے اقدامات کریں گے؟ایسا کرنا ہوگا اگر نہیں کرسکے تو پی ٹی آئی جو کوئی تبدیلی نہیں لا سکی وہ عوام کی جانب سے آنے والی تبدیلی کو روک بھی نہیں سکے گی۔