جنرل پرویز مشرف آئین شکن ہیں یا ملک شکن، یہ عوامی موضوع بن گیا ہے اور عوام کے ہر حصے اور ملک کے ہر گوشے میں زیر بحث ہے، سوال کیا جا رہا ہے کہ 40 سال فوج میں خدمات انجام دینے والا، 10 سال فوج کا سربراہ رہنے والا اور8 سال ملک کا صدر رہنے والا کوئی شخص کیا ملک کا غدار بھی ہو سکتا ہے؟ خصوصی عدالت کے فیصلے کوایک جانب شخصی، ذاتی، گروہی اور جماعتی سوچ کی عینکوں سے بھی دیکھا جا رہا ہے اور اسی ذاویے سے تجزیے اور تبصرے کیے جا رہیں ہیں تو دوسری جانب جمہوری، قومی اور ملکی سلامتی کی سوچ کے حوالے سے بھی غور کیا جا رہا ہے۔
سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو آئین شکنی اور اور ایمرجنسی لگانے کے الزام پر قائم خصوصی عدالت کی جانب سے سزائے موت کے فیصلے نے ملک کی عدالتی اور سیاسی تاریخ بدل کر رکھ دی ہے جس کے یقینی طور پر دوررس اور گہرے اثرات مرتب ہوں گے، ایک طرف جہاں نظریہ ضرورت پر گہری ضرب پڑی ہے وہاں عدالتوں پر لگنے والے الزامات کا بھی بڑا جواب سامنے آیا ہے، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے دور اور ان کی مدت پوری ہونے سے چند روز قبل دو بڑے فیصلے آئے ہیں، آرمی چیف کو توسیع دینے کے حوالے سے پارلیمنٹ کو رہنمائی اور غداری کیس میں ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت کا فیصلہ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ کے خاموش انقلاب قرار دیے جارہے ہیں۔
غداری کیس کے فیصلے پر قانونی اور آئینی حوالے سے تو متضاد آرا موجود ہیں لیکن اس پر سیاسی رائے ایک ہی ہے کہ یہ تاریخی فیصلہ ہے اور اس سے آئندہ فوجی مداخلت کا راستہ بند ہو گیا ہے، اب کسی کو آئین شکنی کی جئرات نہیں ہوگی، جمہوریت کا تسلسل برقرار رہے گا لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہوگی کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، تیسری دنیا کے ممالک میں کوئی بات حتمی اور آخر نہیں ہوتی تاہم اس کے جو بھی نتائج نکلیں گے اس سے ملک کے نظام میں بہتری کی بہت امید ہے کیونکہ کوئی بھی قدم صحیح سمت اٹھے یا غلط سمت، کچھ سکھا کر ہی جاتا ہے جیسا ان فیصلوں سے ہوا، اس کے باعث وہ عدلیہ جس پر الزامات کی بوچھاڑ رکتی نہیں تھی آج اس پرتحسین برسائی جا رہی ہے۔
آئین شکنی کیس کا جہاں مثبت پہلو یہ ہے کہ اس فیصلے نے آمریت کا راستہ روکا ہے وہاں منفی پہلو یہ ہے کہ اس سے ملک کے دو بڑے ادارے آمنے سامنے آ گئے ہیں، کسی فیصلے یا کسی نکتے پر دو رائے ہونا اچھی علامت سمجھی جاتی ہے جیسا اس فیصلے میں حکومتی حلقے خوش نہیں بلکہ وہ تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ حزب مخالف اس فیصلے کو نہ صرف سراہ رہی ہے بلکہ تاریخی بھی قرار دے رہی ہے۔ ایسا ہی کچھ وکلا برادری کے درمیان ہو رہا ہے، ان کی متضاد رائے اور بالخصوص اٹارنی جنرل کا موقف اہمیت کا حامل ہے اور فیصلے پر سوالیہ نشان بھی ہے۔
فوجی ترجمان کا ردعمل اور انکے الفاظ کہ ”فوجی کبھی غدار نہیں ہوسکتا“ بہت اہمیت کے حامل ہیں، اس سے یہ مفہوم نکالا جا سکتا ہے کہ جب آپ فوج کے سربراہ کوغدار قرار دیں گے تواس کی لپیٹ پھر پوری فوج آئے گی، یہ نکتہ معمولی نہیں ہے کیونکہ ایسی صورت حال میں ساکھ ہی داؤ پر نہیں لگتی، عزت، وقار اور حوصلہ بھی زد میں آتا ہے۔ فوج کی حوصلہ شکنی ملک و قوم کے لیے درست قرار نہیں دی جا سکتی، خصوصی عدالت کا فیصلہ ہوسکتا ہے کہ آئین اورقانون کے مطابق ہو لیکن جب ماہرین آئین و قانون یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اس میں آئینی تقاضے پورے نہیں کیے گئے تو اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
یہ کوئی عام فوجداری مقدمہ نہیں تھا جس کی عام انداز میں اپیل ہوجائے گی، جیسا کہ کہا جارہا ہے کہ پرویز مشرف اپیل میں جا سکتے ہیں اور انھیں اپیل میں جانا چاہیے، یہ ایک فوجی سربراہ کا ایک ایسا مقدمہ تھا جس نے ملک کے ساتھ کوئی ایسی غداری نہیں کی تھی جس سے ملک کی سرحدوں کو نقصان پہنچا ہو، اس نے کوئی ملکی راز دشمن کو نہیں دیے تھے اور نہ ہی وہ دشمن سے جاکر مل نہیں گیا تھا بلکہ اس نے ”آئین توڑا تھا“۔ گو کہ آئین کے آرٹیکل 6 میں آئین شکنی غداری قرار دی گئی ہے جس کی سزا بھی ہے لیکن غدار لفظی اور معنوی طور پر ایک ایسا لفظ ہے جس کا مطلب ایسا شخص ہے جو دشمن سے مل گیا ہو، جس نے ملکی راز دشمن کو بیچ دیے ہوں، غیر ملکی فوجوں کو اپنے ملک کے اندا آنے کا راستہ دیا ہویا ملک کا دفاع نہ کیا ہو۔
اس پس منظر میں فوجی ترجمان کا یہ موقف ان سب نکات کی نفی کرتا ہے کہ پرویز مشرف نے ملک کے دفاع میں دو جنگیں لڑیں، 40 سال فوج میں خدمات انجام دیں، اس فیصلے کو فوج میں تسلیم نہیں کیا گیا اور اس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، خصوصی عدالت کی نظر میں پرویز مشرف آئین شکنی کے مرتکب ہوئے یعنی وہ آئینی طور پر غداری کے زمرے آئے ہیں لہٰذایہ تاثر ختم ہونا ضروری ہے کہ پرویز مشرف ملک کے غدار ہیں، انہوں نے ملک کی سرحدوں کے ساتھ غداری نہیں کی ہے، وہ آئین شکن ہیں ملک شکن نہیں۔