پاکستان پیپلزپارٹی کی اپنے گڑھ لاڑکانہ کے ضمنی انتخاب میں شکست اور حکومت خلاف تحریک کا اعلان دو متضاد عمل ہیں، پیپلزپارٹی کی تحریک کی کامیابی تو الگ بات، سوال یہ ہے کیا پیپلزپارٹی تن تنہا حکومت مخالف تحریک چلا بھی پائے گی یا اسے پھرلاڑکانہ جیسی صورت حالات سے دوچار ہونا پڑے گا؟
میاں نواز شریف کے بعد شہباز شریف کی جانب سے مولانا فضل الرحمٰن کا ساتھ دینے کے کھلے اعلان کے بعد سیاسی حلقوں میں پیپلزپارٹی کی تنہا پرواز کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے، کہا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی پارلیمینٹیرینز کے صدر آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کا تحفظ اور سندھ حکومت بچانا ان کی اولین ترجیح بن گئی ہے۔
لاڑکانہ کے ضمنی انتخاب میں جہاں دیگر کئی عوامل کارفرما ہیں وہاں پیپلزپارٹی کی قیادت اورحکومت بچاؤ سوچ بھی سب سے آگے ہے، لاڑکانہ کے ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے جس طرح مولانا فضل الرحمٰن کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی اس سے اندازہ ہو چلا تھا کہ پیپلزپارٹی اپنی بارگیننگ پوزیشن کو ضائع نہیں ہونے دے گی، وہ آخر دم تک کوشش کرے گی کہ قیادت پر ہاتھ ہلکا رہے اور سندھ حکومت بھی بچی رہے۔
ملک کا سیاسی ماحول دن بدن گرم ہو رہا ہے، حکومت کی جانب سے ایک طرف مولانا کے آزادی مارچ سے متعلق بظاہر بے فکری کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب مذاکرات کی پیش کش کے ساتھ کمیٹی کی تشکیل اس کی پریشانی بھی ظاہر کرتی ہے، حکومت کا ایک قریبی حلقہ مارشل لا کے خدشات کا اظہار کر کے جمہوری قوتوں اور سول سوسائٹی کوآزادی مارچ سے دور رکھنے کی کوشش میں لگا ہے جبکہ ان سب کے برعکس مولانا فضل الرحمٰن تمام سیاسی قوتوں اور سول سوسائٹی کو اپنے ساتھ ملاتے نظر آتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن اس وقت ملک کے زیرک سیاستداں مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان کی طرح نہ صرف متحرک ہیں بلکہ ان کی طرح تمام قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے بھی نظر آ رہے ہیں، مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی جو پی ٹی آئی حکومت کے اتحادی ہیں ان کی بھی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان کی قیام گاہ جا کر ان سے ملاقات کرنا اور لاہور میں سول سوسائٹی اور لبرل دانشوروں کے ساتھ مکالمہ کرنا مولانا کی سیاسی بصیرت کا بڑا مظہر ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی مولانا فضل الرحمٰن کا ساتھ دینے کی باتیں تو کرتی رہی ہے لیکن مسلم لیگ ن کی طرح کھل کر ساتھ آنے کا اعلان نہیں کیا اور اس کے برعکس خود احتجاجی تحریک شروع کر دی ہے، سیاسی حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ لاڑکانہ کے ضمنی انتخاب میں شکست کے بعد تن تنہا احتجاجی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ مناسب نظر نہیں آتا، خاص طور پر اس وقت جب ملک میں ایک بڑی تحریک منظم ہونے جا رہی ہو، پاکستانی سیاست اور خاص طور سے حزب اختلاف کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب کبھی حکومت مخالف کوئی تحریک چلی تو وہ متحد ہو کر چلائی گئی اور اس کے نتیجے میں حکومت وقت کا خاتمہ ہوا ہے اور جب کبھی تن تنہا کوشش کی گئی تو وہ ناکام ہوئی ہے۔
50 کی دہائی کے اوائل میں مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ جو اے کے فضل حق، حسین شہید سہروردی اور مولانا عبدالحمید بھاشانی کی جماعتوں اور دیگر پر مشتمل تھا، نے مسلم لیگ کی حکومت کو شکست دی تھی، 1968-69 میں یو ڈی ایف نے ایوب حکومت کا خاتمہ کیا، 1977 میں پی این اے کی تحریک بھٹو حکومت کے خاتمے کا سبب بنی، 1983 میں ایم آرڈی کی تحریک نے ضیاالحق کو ملک میں عام انتخابات کرانے اور ماشل لا اٹھانے پر مجبور کیا۔
آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے 1990میں بینظیر کے خلاف تحریک شروع کی گئی جس نے حکومت کا خاتمہ کرایا، محترمہ بینظیر بھٹو نے نواز حکومت کے خلاف جی ڈی اے کے نام سے اتحاد بنایا، تحریک چلائی جس کے نتیجے میں 1993 میں نواز حکومت کا خاتمہ ہوا، 2000 میں پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے خلاف اے آر ڈی تشکیل دی گئی اور پہلی بار نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو ایک اتحاد میں شریک ہوئے، پرویز مشرف کو پارلیمینٹ بحال کرنا پڑی، 2006-7 میں گو کہ کوئی بڑا اتحاد نہیں بن پایا تاہم مسلم لیگ ن نے لندن میں گرینڈ آل پارٹیز کانفرس منعقد کر کے اور پیپلزپارٹی کے ساتھ میثاق جمہوریت کرکے پرویز مشرف کو وردی اتارنے اور پھر صدارت سے مستعفٰی ہونے پر مجبور کیا۔
2014 میں عمران خان سولو فلائٹ لے کر چلے جس کا انجام سب کے سامنے ہے، آج پھر مولانا فضل الرحمٰن تاریخی تسلسل کے ساتھ کامیابی کے لیے اتحاد کی جانب گامزن ہیں، اس کے برعکس پیپلزپارٹی ”نیم دروں نیم بروں“کے انداز میں مولانا کے ساتھ ہے۔ اگر اس جماعت نے سولو فلائٹ جاری رکھی تو2014 کے پی ٹی آئی سے مختلف نتیجہ نہیں آئے گا۔
لاڑکانہ میں شکست کے بعد پیپلزپارٹی کو اپنی صفیں درست کرنی چاہئیں تھیں خاص طور سے دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ رابطے استوار کرنا ضروری تھا، اس کے بجائے اس نے سولو فلائٹ کا فیصلہ کرلیا، سندھ میں پہلے ہی تمام جماعتیں ان کے خلاف جی ڈی اے کی شکل میں متحد ہیں، عباسی خاندان کی طرح پارٹی کے پرانے بہی خواہ اور دیگر خاندان بھی لاتعلق نظر آتے ہیں، ایسے میں سولو فلائٹ خود کشی سے کم نہیں ہے۔
عمران خان حکومت کے خلاف ایک ماحول گرم ہے، مولانا فضل الرحمٰن نے موثر اور اہم جماعتوں کی بھرپور حمایت حاصل کرلی ہے، پیپلزپارٹی بھی مسلم لیگ ن کی طرح اگر اس تحریک کا حصہ بنے تو اس کی گرتی ساکھ بحال ہو سکتی ہے، مولانا فضل الرحمٰن نے تو اسلام آباد پہنچنے کا تہیہ کر لیا ہے۔
بدلتی سیاسی صورت حال میں مولانا فضل الرحمٰن کی شخصیت ایک نیا روپ لے کر سامنے آ رہی ہے، وہ ایک صوبے اورایک فرقے کے مذہبی رہنما کی جگہ ایک سیاسی قومی رہنما کے طور پر ابھر رہے ہیں، لگتا ہے یہ ان کی شعوری کوشش رہی ہے اسی لیے انھوں نے جہاں سول سوسائٹی اور لبرل قوتوں سے مکالمہ کیا وہاں اپنی گرفتاری کی صورت میں اے این پی کے قائد اسفندیار ولی کو قیادت کیلیے منتخب کیا جو خیبر پختون خواہ میں ان کے سب سے بڑے حریف، قوم پرست اور بائیں بازو کے مقبو ل رہنما ہیں۔
ایک طرف ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے تو دوسری طرف تاریخ بھی دہرائی جا رہی ہے، 42 سال پہلے فضل الرحمٰن کے والد مفتی محمود اور اسفندیار ولی کے والد خان عبدالولی خان بھٹو حکومت کے خلاف تحریک میں ساتھ ساتھ تھے۔ سیاست کیا کیا رنگ دکھاتی ہے۔۔