خان جیت گیا، پر ٹیم ۔۔۔

جہاں خان خود ہوتا ہے کارکردگی بھی وہیں نظر آتی ہے۔ خان جو چاہتا ہے وہ پا لیتا ہے لیکن خان جو اپنی ٹیم سے چاہتا ہے وہ نہیں حاصل کر پا رہا۔ منتخب نمائندوں کو تو چلیں عوام لائے ہیں، اگر وہ کچھ نہ بھی کر رہے ہوں تو انکو ہم  صرف کوس سکتے ہیں لیکن جو منتخب نمائندے  نہیں ہیں اور مشیر و معاون خصوصی کی مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، ان سے تو سب سے پہلے سوال بنتا ہے کہ اپنی نہیں تو خان کے فیصلے کی ہی عزت رکھ لیتے۔ جہاں سے لوگوں کو ہٹا کر آپکو لگایا گیا ہے تو وہاں کچھ تواپنے نام لگا کر داد وصول کر لیتے۔

حکومتی ٹیم اپنی کارکردگی کا دفاع کرتے یا پھر حزب اختلاف پر وار کرتے نظر آتی ہے، یہ بھی اگرچہ جمہوریت کا حصہ ہے لیکن خان صاحب جہاں جاتے ہیں، انہیں اپنی ٹیم کا دفاع کرنا پڑ جاتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کرسی اقتدار پر اسی کام کے لیے بیٹھے ہیں۔ خان کی اکیلے کی کارکردگی، تقریریں، بیانات، خطابات، فیصلے، ملاقاتیں، سوچ اور ویژن ایک طرف اور خان کی پوری ٹیم ایک طرف۔

کچھ وزارتیں تو ایسی ہیں کہ وہاں بہت کچھ کرنے کی گنجائش موجود ہے، مثال کے طور پر پاکستان پوسٹ اور مواصلات نے مراد سعید کو بھرپور موقع دیا کہ وہ اس ادارے میں اور مواصلات کے نظام میں جدت لائے اور کئی کام ایسے بھی ہوئے جن کا مجھے تب پتہ چلا جب میں خود وہاں پارسل پوسٹ کرنے گئی۔ موٹرویز اور پبلک ٹرانسپورٹ میں معذورافرد کے لیے خصوصی نشستیں اور سہولیات فراہم کرنے کا بھی حکم خان صاحب نے دیا جب میں نے ایک ٹویٹ کر کے انہیں اور مراد سعید کو بھجوائی کہ بسوں کے اڈوں پر ویل چیئر کےلیے ریمپ موجود نہیں اور معذور افراد کو شدید مشکلات در پیش ہیں۔

ایک اور وزارت جہاں کام کرنے کا بڑا مارجن ملا وہ وزارت تعلیم ہے جو شفقت محمود کے پاس ہے۔ ہم یکساں تعلیمی نظام لائیں گے، تعلیمی نصاب میں جدت لائیں گے، بہتری ہو گی، تعلیم عام کریں گے۔ یہ نعرے اور وعدے تھے جو تحریک انصاف نے کیے تھے۔ شفقت محمود صاحب نے ٹاسک فورس بنائی لیکن سال ہونے کو ہے، نہ تو تعلیمی نظام یکساں ہوا اور نہ ہی نصاب بہتر ہوا۔ مدارس اور عام اسکولوں میں یکساں تعلیمی نظام ایک ایسا عمل ہے جس میں علماء کرام کے ساتھ بیٹھ کر اپنی بات انکو سمجھانا پڑے گی اور کچھ انکی سمجھنا پڑے گی لیکن ایک سال میں نصاب میں بہتری تو لائی جا سکتی تھی۔

دوسری طرف وزارت اطلاعات و نشریات کو دیکھیں تو ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے پاس اپوزیشن کے امراضِ کا علاج تو شاید ہے لیکن پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کا کوئی علاج نہیں۔ ہوا ہوئی وہ میڈیا یونیورسٹی جسکا اعلان فواد چوہدری نے یہ وزارت سنبھالتے ہی کیا تھا، ہوا ہوئے وہ اعلانات جو فواد چوہدری نے بچوں اور اسپورٹس کے خصوصی چینل کھولنے کے کئے تھے۔ پہلے مسئلہ تھا کہ کہ ایک حکومت کی پالیسیاں دوسری حکومت کے الٹ ہوتی تھیں اب مسئلہ یہ ہے کہ جو وزیر بھی آتا ہے اسکی پالیسی سابقہ وزیر سے فرق ہوتی ہے، تسلسل نہیں رہتا اور جو اچھے کام ہو بھی رہے ہوں وہ ایک دوسرے کی ضد میں روک دیے جاتے ہیں۔

صحت کی طرف نظر دوڑائیں تو ہیلتھ کارڈ اور ایم ٹی آئی ریفارمز ایکٹ بہت اچھا اقدام ہے جس سے ڈاکٹروں اور اسپتالوں کی جانچ پڑتال ہو گی اور لوگوں کو بہتر سہولیات ملیں گی لیکن ڈینگی کا مچھر ان سے قابو نہ ہوا، اسلام آباد اور راولپنڈی خاص طور پر اس کا نشانہ بنے۔ اب تک ملک بھر میں آٹھ ہزار سے زائد ڈینگی کے کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ 31 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

اقتصادی اور معاشی ٹیم کی کارکردگی کچھ ملی جلی ہے لیکن ان کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے جو اچھے کام بھی کیے اور جہاں یہ ٹیم بہتری لائی وہاں بھی مار کھا گئی کیونکہ ٹی وی پر آ کر اپوزیشن کے ساتھ بلکہ بہت بار ان کے بغیر بھی بیٹھ کر سوالات کے جوابات دینا یہ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔

داخلی اور صوبائی امور بھی بس چل ہی رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں تو چھ سال سے حکومت چل رہی ہے لیکن ٹیم آج پہلے سے زیادہ پیچیدگیوں میں الجھی نظر آتی ہے، کبھی نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہیں کبھی وہی نوٹیفیکیشن واپس لیتے ہیں۔ پنجاب کے معاملے میں صرف ایک اہم اعلان ”جو کہیں بھی دوسرا ناصر درانی دیکھے، فورا بزدار کو آگاہ کریں اور ایک لاکھ روپے انعام پائیں“ کیونکہ حکومت ناصر درانی جیسا جب تک نہیں ڈھونڈ لیتی تب تک پولیس کا کم از کم کچھ نہیں ہونے والا۔

اور ہاں یاد آیا ۔۔۔ وہ جنوبی پنجاب والے بھی تو ہیں کابینہ میں ان کے بارے میں بس اتنا ہی کہ جنوبی پنجاب محاذ کا نعرہ اگلے انتخابات میں بھی شاید سننے کو ملے۔۔۔

باقی رہ گیا خارجی اور دفاعی محاذ تو وہاں چونکہ خان خود سب سے آگے ہے تو وہاں معاملات زبردست ہیں۔ کیا تقریر تھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں، تاریخ میں یاد رکھا جائے کہ کوئی شیر آ کر چنگھاڑا تھا۔

وزیر اعظم کی وطن واپسی ہو گئی اور پرجوش واپسی ہوئی۔ اب تبدیلیاں بھی آئیں گی، فیصلے بھی کیے جائیں گے لیکن ان تمام فیصلوں اور تبدیلیوں کا فائدہ تب ہوگا جب خان فائدہ اٹھانا چاہے گا۔ خان صاحب جیسے ملک کے باہر دھاڑے تھے ویسے ہی اندر بھی دھاڑیں اور سب کو آخری تنبیہ دیں کہ اگر کارکردگی نظر نہ آئی ہر لحاظ سے تو اللہ حافظ۔۔۔

ٹاپ اسٹوریز