ایران امریکہ بگڑتے تعلقات

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ایران نے افزودہ یورینیم کی حد عبور کر لی ہے اور ایرانی صدر حسن روحانی نے اس کا جواز یہ پیش کیا کہ مغربی ممالک نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے- اس بات کا اعلان عالمی جوہری ادارے آئی اے ای اے نے دو جولائی کو کیا-

آئی اے ای اے کا پورا نام انٹرنیشنل اٹا مک انرجی ایجنسی ہے جسے اردو میں بین الاقوامی جوہری توانائی کا ادارہ کہا جا سکتا ہے۔ اس ادارے کا بنیادی کام جوہری توانائی کے پرامن استعمال کو فروغ دینا اور اس کے فوجی استعمال کو روکنے کی کوشش ہے۔ گویا جوہری ہتھیاروں کی پیداوار اور تیاری پر نظر رکھنا اور ان پر قد غن لگانا اس ادارے کے فرائض میں شامل ہے-

آئی اے ای اے کو 1957 میں ایک خود مختار ادارے کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا تاہم یہ اقوام متحدہ کی مجلس عامہ یعنی جنرل اسمبلی کے ساتھ ساتھ سلامتی کونسل کو بھی جوابدہ ہے- اس کا مرکزی دفتر ویانا آسٹریا میں ہے اور اس کے دو علاقائی دفاتر ٹورنٹو کینِیڈا اور ٹوکیو جاپان میں ہیں-

اب اسی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ایران نے تین سو کلوگرام کی طے شدہ حد عبور کر لی ہے- معاہدے کے مطابق ایران پر پابندی تھی کہ وہ افزودہ یورینیم کی مقدار تین سو کلو گرام سے زیادہ نہیں رکھے گا- اس طرح ایران پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس نے 2015 کے مشترکہ جامع منصوبہ عمل یعنی جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کی خلاف ورزی کی ہے جو ایران نے بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ کیا تھا-

دوسری جانب امریکہ نے کہا ہے کہ اس خلاف ورزی کے بعد بھی امریکہ کی ایران پر دباؤ کی پالیسی جاری رہے گی- یاد رہے کہ گزشتہ سال صدر ٹرمپ نے امریکہ کو ایران کے ساتھ 2015 کے معاہدے سے نکال لیا تھا- اس معاہدے میں بین الاقوامی طاقتیں اس بات پر راضی ہو گئیں تھیں کہ ایران ایک محدود سطح کے اندر یورینیم کی افزودگی کر سکتا ہے- اب امریکی صدر کہتے ہیں کہ ایران کو کسی سطح پر بھی افزودگی کی اجازت نہیں دی جا سکتی-

آخر یہ افزودگی ہے کیا؟ دراصل یورینیم ایک عنصر ہے جس میں یورینیم دو سو پینتس کا فی صد تناسب ایک عمل کے ذریعے بڑھا دیا جاتا ہے- قدرتی یورینیم میں نناوے فی صد سے زیادہ یو آئی سو ٹوپ ہوتا ہے جس میں یورینیم دو سو پینتس اس کی کمیت کا اعشاریہ سات فی صد ہوتا ہے۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ قدرتی یورینیم سے ہم ایٹم بم نہیں بنا سکتے- صرف یو دوسو پینتس ہی وہ واحد قدرتی آئی سو ٹوپ ہے جسے تھرمل نیوٹرون کے ساتھ توڑا جا سکتا ہے- جب یو دو سو پینتس کی مقدار یا تناسب بڑھایا جاتا ہے تو اس سے افزودہ یا ان رچڈ یورینیم تشکیل پاتا ہے جو کہ جوہری توانائی کی پیداوار اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری دونوں میں استعمال ہوتا ہے- اسی سے جوہری توانائی کے ادارے افزودہ یورینیم کی تیاری اور رسد پر نظر رکھتے ہیں –

اس وقت دنیا بھر میں دو ہزار ٹن کے قریب افزودہ یورینیم ہے جو زیادہ تر جوہری توانائی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور جوہری ہتھیاروں کے لیے بھی۔

جوہری توانائی کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ یورینیم موجود اعشاریہ سات فی صد یو دو سو پینتس آئی سوٹوپ کو افزودہ کر کے تین سے پانچ فی صد تک پہنچا دیا جائے-

اس وقت بھی ایرا ن کا افزودہ یورینیم اس سطح سے بہت کم ہے جو ایک جوہری ہتھیار بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے- ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا ہے کہ انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی کیوں کہ 2015 میں معاہدہ برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس، اور چین کے ساتھ کیا گیا تھا اس کے تحت انہوں نے معاہدے کے فریقین کو کئی ہفتے دیے کہ وہ کسی رد عمل کا مظاہرہ کریں مگر ساٹھ ہفتے بعد بھی ایران کو ہی قدم اٹھانا پڑا-

امریکہ نے 2018 میں معاہدے سے علیحدگی اختیار کی تھی اس کے بعد ایران نے ایک سال کے وقفے سے مئی 2019 میں یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کیا- یورپی طاقتوں میں برطانیہ اور جرمنی ایران سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہ افزودگی نہ شروع کرے- یاد رہے کہ ان یورپی ممالک نے ابھی تک امریکہ کی طرح وہ پابندیاں ایران پر عائد نہیں کی ہیں۔

اس سارے تنازع کا براہ راست تعلق مجموعی مشرق وسطیٰ کی صورت حال سے بنتا پے کیوں کہ ایران پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے آبنائے ہرمز میں ایک امریکی ڈرون مار گرایا تھا- اس پر تیل بردار بحری جہازوں پر بھی حملوں کا الزام ہے- ایران کا موقف ہے کہ معاہدے کے مطابق اگر کوئی ایک فریق معاہدہ کی پاس داری نہ کرے تو دوسرا فریق بھی ایسا کر سکتا ہے- ایران کا مطالبہ تھا کہ یورپی طاقتیں ایران کو امریکی پابندیوں سے بچانے کے لیے اقدام اٹھائیں جو انہوں نے نہیں کیے۔

اس وقت افزودگی کی طے شدہ سطح صرف تین اعشاریہ چھ فی صد تھی جو ایران کر سکتا تھا- اب برطانیہ نے بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ایران نے خلاف ورزی کر کے غلط کیا ہے اوراسی طرح اقوام متحدہ کے نمائندے نے بھی کہا ہے کہ اس سے ایران کو کوئی معاشی یا فوجی فائدہ نہیں ہوگا-

روس کا ردعمل خاصا مختلف ہے گو کہ اس نے بھی افسوس کا اظہار کیا ہے مگر یہ بھی کہا ہے کہ اس کو ڈرامائی رنگ نہ دیا جائے- یاد رہے کہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کم از کم نوے فی صد افزودگی کی ضرورت ہوتی ہے- کہا جاتا ہے کہ اگر ایک ہزار کلو گرام سے زیادہ افزودہ یورینیم ہو تو اس ذخیرے کو بعد میں افزودہ کر کے کم از کم ایک ایٹم بم بنایا جا سکتا ہے۔

اب اگلے تیس دن میں معاہدے میں شامل ممالک میں سے کوئی ایک بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تحت قرارداد دو ہزار دو سو پینتس کے تحت ختم کی گئی پابندیوں کو دوبارہ عائد کرا سکتا ہے اور یہ بات ویٹو نہیں ہو سکتی۔

دوسری جانب امریکی صدر کا رویہ بڑا غیر مستقل ہے یعنی وہ کبھی کچھ کہتے ہیں تو کبھی کچھ- کبھی ایران کو نیست و نابود کرنے کی بات ہوتی ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ ایران پر حملہ نہیں کیا جائے گا- ویسے شمالی کوریا کے رہ نما سے اچانک ملاقات اور پھر دوستی کی باتیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ امریکہ ایران کے خلاف کارروائی کرنے سے پہلے شمالی کوریا کے محاذ پر گرمی نہیں دکھانا چاہتا-

ٹاپ اسٹوریز