احتساب کے اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، صدر مملکت



اسلام آباد: تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد سینیٹ اور قومی اسمبلی کا پہلا مشترکہ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی صدارت میں شروع ہو گیا ہے۔

اجلاس کا آغاز حسب معمول قومی ترانے اور تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبول ﷺ پیش کی گئی اور پھرصدر مملکت کا خطاب شروع ہوا۔

صدر مملکت نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں زیرزمین پانی کی سطح بہت نیچے جا چکی ہے، بلوچستان اور سندھ کے بیشتر علاقے خشک سالی کا شکار ہیں جبکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے نہ صرف ڈیم ضروری ہیں بلکہ شجر کاری بھی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پانی کے ضیاع کو روکنا بھی انہیں کوششوں کا حصہ ہے۔ اس کے لیے آبپاشی کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ڈرپ اریگیشن کی تکنیک کو بھی استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔

صدر پاکستان کا کہنا تھا کہ عوام کرپشن سے پاک معاشرہ چاہتے ہیں، احتساب کے اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے اوپر بیرونی اور اندرونی قرضوں کے پہاڑ ہیں۔ کرپشن پر قابو پانے کے لیے صاف شفاف نظام ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری آبادی ساٹھ فیصد نوجوانوں پر مشتعمل ہے۔ اگر ہم ہنرمند لیبر کو بیرون ملک بھیجیں تو ملکی آمدنی اور وقار میں بھی مددگار ثابت ہو گا۔ بچوں کی نشوونما کا معیار عالمی معیار سے کہیں کم ہے۔ غیرمناسب غذا بچوں اور ماؤں کی تشوونما میں رکاوٹ ہے۔

معیشت کے بارے میں صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ حکومت کو مالیاتی خسارہ کم کرنا چاہیے، سرمایہ کاری کرنے کو آسان بنائے، اس کے علاوہ بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنا چاہیے۔

خارجہ پالیسی کے ضمن میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہش مند ہے، ہم بھارت کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ کشمیر تنازعہ کا حل دونوں ممالک کے درمیان پائیدار تعلقات کے لیے لازم ہے۔ پاکستان کی حکومت اور عوام مقبوضہ کمشیر کی عوام کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔

چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاک چین تعلقات مثالی دوستی اور باہمی اعتماد پر محیط ہیں۔ ہر دن کے ساتھ ساتھ یہ تعلق مضبوط تر ہوا ہے۔ موجودہ حکومت سی پیک منصوبے کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے جبکہ ترکی کے ساتھ ہمارے تعلقات خصوصی نوعیت کے ہیں، اسی طرح افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کی خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ہمیں بجلی کے نظام کو بہتر بنانا ہو گا، لائن لاسز کو کم کرنا ہو گا اور بجلی چوری کا سدباب کرنا ہو گا۔

دینی مدارس کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 30 لاکھ سے زائد بچے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان مدارس میں جدید نصاب تعلیم کو دینی تعلیم سے ہم آہنگ کرنا چاہیے۔

پاکستان مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف صدر مملکت کا خطاب شروع ہوتے ہی بائیکاٹ کر کے چلی گئیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے واک آؤٹ میں شرکت کرنے سے معذرت کر لی۔

خطاب کے بعد صدر مملکت عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی ایوان سے روانہ ہو گئے۔

مشترکہ اجلاس میں وفاقی وزیر مذہبی امور نے بیگم کلثوم نواز کے لیے فاتحہ خوانی کی۔

 آئین کے آرٹیکل 56 کی شق تین کے مطابق ہرپارلیمانی سال کے آغاز میں صدر مملکت قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں۔

اجلاس میں صدرمملکت کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے ساتھ ہی قومی اسمبلی کا پہلا پارلیمانی سال شروع ہو گیا ہے۔

قومی اسمبلی کے پارلیمانی سال کے آغاز پر صدرمملکت کا خطاب آئینی ضرورت ہے۔ صدر کے خطاب کے لیے تمام صوبوں کے گورنرز اور وزرائے اعلی سمیت مسلح افواج کے سربراہان اور غیر ملکی سفرا کو بھی دعوت نامے جاری کیے گئے تھے۔

ماضی میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس

 آئین کے آرٹیکل 56 کی شق تین کے مطابق ہرپارلیمانی سال کے آغاز میں صدر مملکت قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں۔

پاکستان میں وقتا فوقتا مختلف صدور نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ سابق صدر ممنون حسین نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے چار بار اور سابق صدر آصف علی زرداری نے 2008 سے 2013 کے دوران پانچ بار پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا اعزاز حاصل کیا۔

سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں سے خطاب کر چکے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف مواخذے کا فیصلہ بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہوا تھا۔

پارلیمان کے مشترکہ اجلاسوں میں ہنگامہ آرائیاں

پارلیمان کا مشترکہ اجلاس کامیاب کرانا جہاں حکومت کے لیے امتحان ہوتا ہے وہیں اسے متاثر کرنا حزب اختلاف کی ترجیح نظر آتا ہے۔ ماضی میں پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس کئی بار ہنگامہ آرائی کی نذر بھی ہوا۔

2016 میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پی آئی اے کو کمپنی بنانے اور پانامہ کے معاملے پر ہنگامہ کھڑا ہوا۔

اسی برس پیپلز پارٹی پر آزادی پسند سکھوں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کرنے اور اسلام آباد سے کشمیر کے بورڈ اتارنے کے معاملہ پر پی پی اور ن لیگ میں سخت ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔

پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے غیر ملکی صدور کا خطاب

پاکستان میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے کئی غیرملکی صدور اور وزرائے اعظم نے بھی خطاب کیا ہے۔

فلپائن کے صدر دیودا ماقاپگل، انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹر احمد سوئیکارنو، سری لنکا کی خاتون وزیراعظم مسز بندرا نائیکے، ترک صدر رجب طیب اردوان، فلسطینی صدر یاسر عرفات، فرانس کے صدر فرانکو متراں، ایران کے علی اکبر رفسنجانی، برطانوی ملکہ الزبتھ دوم، چینی صدر جیانگ ژی من، وزیراعظم وین جیاباو، لی کیانگ اور شی چن پنگ نے بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر چکے ہیں۔


متعلقہ خبریں