اسلام آباد: اپنی نوعیت کے انوکھے کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک شخص کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو ان تمام سالوں کا خرچ ادا کرے جس دوران اس نے اپنی بیٹی کو باپ کی شفقت سے محروم رکھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سماعت کے دوران درخواست گزار تطہیر فاطمہ کے والد سے کہا کہ آپ نے اپنی بیٹی کو 22 سال تک کیوں نظرانداز کیا،اب یہ لڑکی آپ کا نام ہٹا کر تطہر فاطمہ دختر پاکستان کرنا چاہتی ہے۔
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ مجھے میٹرک میں کچھ دستاویزات کی ضرورت پڑی تو میں نے والد سے رجوع کیا لیکن انہوں نے کہا کہ دستاویزات تب دوں گا جب قریبی تھانے میں لکھ کردو کہ تمہاری ماں بد کردار عورت ہے اور تم اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتیں۔
لڑکی کے باپ نے عدالت کو بتایا کہ یہ میری بیٹی ہے میں نے اسے ملنے کے لیے بہت کوششیں کیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا کوششیش کیں، ہمیں تو کچھ نظر نہیں آ رہا۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ نے بچی کے کئی سال ضائع کر دیے، آپ کو اس کا مداوا کرنا پڑے گا، آپ سے گزرے سالوں کا خرچ لیا جائے گا، چاہے چوری کریں یا ڈاکہ ڈالیں۔
لڑکی کے باپ نے عدالت سے استدعا کی کہ میں غریب آدمی ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غریب ہو تو جیل چلے جاؤ، سول مقدمات کا سامنا کرو۔
سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو حکم دیا کہ لڑکی کے والد سے متعلق تحقیقات کی جائیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت دس دن کے لیے ملتوی کردی۔