پشاور: جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان 16 برس اقتدار کی راہداریوں کے مکین رہنے کے بعد خود تو وہاں سے رخصت ہو گئے تاہم وہ اپنے پانچ قریبی رشتہ داروں کو پارلیمنٹ کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن ہار کر بھی جیت گئے ہیں کیونکہ پانچ رشتہ داروں کے اسمبلیوں میں پہنچنے بعد اقتدار اب بھی ان کے گھر کی لونڈی ہی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے 1988 میں پہلی بار ایوان اقتدار میں قدم رکھا اور پھر مسلسل پاکستانی سیاست کا حصہ بنے رہے، اب تک وہ دو مرتبہ انتخابات میں ناکامی کا مزہ چکھ چکے ہیں تاہم ان کا اثر و نفوذ کسی نہ کسی شکل میں حکومتی ایوانوں میں برقرار رہا۔
2002 میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی حکومت نے خیبرپختونخوا میں اقتدار سنبھالا تو ان کے خاندان کے افراد بھی اقتدار کی برکات سے مستفید ہونا شروع ہوئے، حالیہ انتخابات میں ان کے چھوٹے بھائی مولانا لطف الرحمٰن تیسری دفعہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔
اسی طرح انہوں نے اپنے بیٹے اسد محمود کو ٹانک سے قومی اسمبلی کا رکن بنایا اور اب اسے ڈپٹی اسپیکر بنوانے کے لیے سرگرم ہیں۔
اقتدار کی دوڑ میں مولانا فضل الرحمن نے اپنے خاندان کی خواتین کا بھی خاص خیال رکھا ہے، مولانا صاحب کی دو خواہر نسبتی شاہدہ اختر اور ریحانہ اسماعیل مخصوص نشستوں پر بالترتیب قومی اور صوبائی اسمبلی کی رکن بن چکی ہیں۔
2013 کے انتخابات میں مولانا فضل الرحمان کے چھوٹے بھائی مولانا عطا الرحمن قومی نشست ہار گئے تو انہیں سینیٹر بنا دیا گیا۔
ان کے تیسرے بھائی ضیا الرحمن نے سول سروس میں کرشماتی ترقی کے جھنڈے گاڑے، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن (پی ٹی سی ایل) میں اسسٹنٹ انجنیئر بھرتی ہونے والے ضیا الرحمن نے ایم ایم اے کے دور حکومت میں تیز رفتار ترقی کے کئی ریکارڈ توڑ ڈالے۔
ضیاالرحمٰن سب سے پہلے اس وقت کے وزیراعلیٰ اکرم خان درانی کے ایگزیکٹیو آرڈر پر پراونشل منیجمنٹ سروس میں شامل ہوئے، اس کے بعد وہ افغان کمشنریٹ کے ایڈیشنل کمشنر سے ڈپٹی کمشنرخوشاب کے طور پر گریڈ 18 تک پہنچ گئے تو واپس افغان مہاجرین کمشنریٹ میں لا کر گریڈ بیس کی پوسٹ پرکمشنر لگا دیے گئے۔
اس کرشمے میں سابق نون لیگی حکومت کے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ خصوصی تعلقات کا عمل دخل بھی شامل رہا۔
خیبرپختونخوا میں موروثی سیاست کرنے اور اقتدار کے کیک میں اپنا حصہ برقرار رکھنے والوں میں مولانا فضل الرحمن کا خاندان اس وقت سرفہرست ہے۔
سیاسی تجزیہ کار جے یو آئی ف کے سربراہ کو پاکستانی سیاست کا ایک ایسا کردار گردانتے ہیں جو ضرورت کے وقت سیاست اور مذہب کے کارڈز استعمال کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اقتدار سے باہر ہونے پر ان کے سیاسی داؤ پیچ اور بھی کھل کر سامنے آتے ہیں اس لیے وہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے زیادہ مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔