سکھر: دریائے سندھ کے درمیان واقع جزیرے سادھو بیلہ میں بابا بنکھنڈی مہاراج کی 155ویں برسی پر تین روزہ سالانہ میلہ جاری ہے۔
قدیم ’سادھو بیلو یا سادھو بیلہ‘ مندر ہندو مذہب کی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ میلے میں بھارت سمیت مخلتف ممالک سے ہندو اور سکھ زائرین کی ایک بڑی تعداد شرکت کرتی ہے۔
’سادھو بیلو‘ ایک ایسا جزیرہ ہے جہاں درختوں کے جھنڈ اور کئی پتھریلی چٹانیں ہیں۔ یہ جزیرہ اب کوئی جنگل نہیں رہا بلکہ دریا کے بیچوں بیچ جدید عمارتوں کا ایک مسکن ہے۔
دو سو سال قبل سادھو کا بیلہ (جنگل) میں بابا بنکھنڈی مہاراج آئے تھے، انہوں نے دریا کے بیچ اس پُرسکون جزیرے کو پوجا پاٹ کے لیے منتخب کیا اور یہاں مندر بنا لیا۔
کشتیوں کا سہارا لے کر سادھو بیلہ آنے والے ہزاروں زائرین کے رہنے اور کھانے پینے کا انتظام بھنڈار خانے میں ہوتا ہے۔ ہندوؤں کے لیے بھنڈار کی حیثیت مسلمانوں کے لنگر جیسی ہوتی ہے۔
1823 میں بابا بنکھنڈی مہاراج یا سدھ بیلا (جنگل کا بابا) نے 15 سال کی عمر میں اس جزیرے پر قدم رکھا تھا۔ سدھ بیلا کی وفات 60 سال کی عمر میں ہوئی جبکہ مندر کی تعمیر کا آغاز 1889 میں ہوا۔
مندر کی تعمیر میں بھارتی ریاست راجھستان کے شہر جے پور کا ملاگوری سنگ مرمر استعمال ہوا ہے۔ نو ایکٹر پر مشتمل مندر میں عبادت گاہ، لائبریری، بھنڈار اور ایک بڑا باغ ہے۔
سادھو بیلہ مندر مذہبی فرقے ’اُداسی‘ سے منسوب کیا جاتا ہے جو گرو نانک کے بیٹے شری چند کی تعلیمات کو مانتا ہے۔ بابا بنکھنڈی مہاراج انہی کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے یہاں آئے تھے۔
’اُداسی‘ فرقہ سکھوں کے گرو اور ہندوؤں کے دیوتا کو پوجتا ہے۔ اس فرقے سے منسوب یہ مندر ہندوؤں سمیت سکھوں کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔