مخصوص نشستوں کا کیس، پی ٹی آئی سال کا وقت لینے کے باوجود انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرواسکی، چیف جسٹس

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ تسلیم شدہ بات ہے پی ٹی آئی سال کا وقت لینے کے باوجود انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرواسکی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے۔ فل کورٹ بینچ میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز میں الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے تیسرے روز دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ میں 30 منٹ میں دلائل مکمل کرلوں گا۔ میں 4 قانونی نکات عدالت کے سامنے رکھوں گا۔

پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کیلئے الگ اصول اپنایا گیا، جسٹس منیب اختر

وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ پارٹی سرٹیفکٹس جمع کرانے کے وقت پی ٹی آئی کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں تھا، الیکشن میں سرٹیفیکٹ گوہر علی خان کے دستخط سے جمع کرائے گئے، پی ٹی آئی نے اس وقت انٹرا پارٹی الیکشن قانون کے مطابق نہیں کرائے تھے۔ فارم 66 جمع کراتے وقت پی ٹی آئی کا کوئی ڈھانچہ نہیں تھا۔

اس دوران جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر سے استفسار کیا کہ بتائیں غلطی کہاں اور کس نے کی؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی میں بلینک کا مطلب آزاد امیدوار ہے۔ پی ٹی آئی نے فارم 66، 22 دسمبر اور پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکٹ 13 جنوری کو جاری کیے۔

جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ بتا دیں پی ٹی آئی کے کاغذات نامزدگی میں لکھا ہے کہ سرٹیفیکٹ منسلک ہیں۔ جس پر وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 23 دسمبر کو فیصلہ کیا جو پہلے آیا، اس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا۔ جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے کہ سرٹیفیکٹ غلط ہیں کیونکہ تب تک چیئرمین تحریک انصاف کا انتخاب نہیں ہوا تھا؟

وکیل سکندر بشیر کا کہنا تھا کہ سرٹیفیکیٹ جمع کرواتے وقت جب چیئرمین تحریک انصاف منتخب نہیں ہوئے تو کاغذات نامزدگی درست نہیں۔ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، حامد رضا کو بطور چیئرمین سنی اتحاد کونسل اپنے آپ کو ٹکٹ جاری کرنا چاہیے تھا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی۔ حامد رضا نے 22 دسمبر کو کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار کہا۔ حامدرضا نے کاغذات نامزدگی میں بریکٹ میں لکھا کہ اتحاد تحریک انصاف سے ہے، حامد رضا نے پارٹی سے وابستگی 13 جنوری کو جمع کروائی۔

دوران عدت نکاح کیس، بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی اپیلیں مسترد

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس معاملے پر میں اور آپ ایک پیج پر ہیں، جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ پیچ پھاڑ دیں مجھے ایک پیج پر نہیں رہنا۔

اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ تو کئی سال قبل سے آ رہا تھا. تحریکِ انصاف بار بار انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے وقت مانگ رہی تھی، سپریم کورٹ پر مت ڈالیں. الیکشن کمیشن پہلے دیکھ سکتا تھا، فٹ بال کی طرح ایکسٹرا ٹائم کو دیکھ رہے ہیں، اصل گیم 90 منٹ کا ہوتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال تھا کہ انتخابات جائز ہوئے یا نہیں؟ 22 دسمبر کو جب نشان لے لیا تو مطلب انتخابات کے لیے پارٹی ہے۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تسلیم شدہ بات ہے کہ پی ٹی آئی سال کا وقت لینے کے باوجود انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروا سکی، بطور وزیرِ اعظم درخواست دی کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے سال دے دو۔

اس دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ امیدوار علی محمد خان نے نہ سرٹیفکیٹ، نہ ہی ڈیکلریشن میں کچھ لکھا ہوا ہے، ایسے بے شمار ہیں جو کاغذاتِ نامزدگی میں بلینک ہیں۔

کیس کی سماعت مختصر وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت یقینی بنانے کے لیے مخصوص نشستیں رکھی گئیں. مخصوص نشستیں صرف سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی سے ہی مل سکتی ہیں. خواتین کو پہلی مرتبہ قومی و صوبائی اسمبلوں کے ساتھ سینیٹ میں بھی بڑی تعداد میں نمائندگی 2002 میں ملی.

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ یہ بات آپ کس بنیاد پر کر رہے ہیں؟ کیا مخصوص نشستوں کے لیے 2002 سے یہی فارمولہ چل رہا ہے؟ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ سال 2002 میں الیکشن ایکٹ 2017 نہیں تھا۔ جو فارمولہ آپ بتا رہے ہیں وہ الیکشن رولز کے سیکشن 94 سے متصادم ہے۔

پی ٹی آئی میں فارورڈ نہیں ، صرف عمران خان کا بلاک ہے ، مخصوص نشستیں ہمیں ملیں گی ، بیرسٹر گوہر

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مخصوص نشستوں کا فارمولہ نئے قانون میں بھی تبدیل نہیں ہوا۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آزاد امیدواروں کی سیٹیں تو آپ نے شامل کی ہیں نا؟ آزاد امیدواروں کو کم کردیں تو سیاسی جماعتوں کی مخصوص نشستیں بھی کم ہو جائیں گی۔ مجھے جو سمجھ آیا اگر آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شمار نہیں ہوتا تو کیا وہ کہیں بھی شامل نہیں ہوگا کیا؟

اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کاش میرا چیف جسٹس جیسا دماغ ہوتا، پڑھتے ہی سب کچھ سمجھ جاتا لیکن میں عام آدمی ہوں۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آئین لوگوں کے لیے بنائے جاتے ہیں، وکلا اور ججز کے لیے آئین نہیں بنائے جاتے۔ آئین لوگوں کی پراپرٹی ہے، آئین ایسے بنایا جاتا ہے کہ کہ میٹرک کا طالب علم بھی سمجھ جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ عدالت چاہتی جس سیاسی جماعت کا جو حق ہے اسے ملے، کسی کو کم زیادہ سیٹیں نہ چلی جائیں، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ حق کیا ہے؟ سپریم کورٹ نے آئین کو دیکھنا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ فارمولا تو الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے، جس کو الیکشن کمیشن چاہے آزاد امیدوار بنا دے،

بعد ازاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم باریکیوں میں چلے جاتے ہیں، الیکشن کمیشن خودمختار آئینی ادارہ ہے جس کی کوئی حیثیت سمجھتا ہی نہیں۔ اگر دھاندلی ہوئی تو جب تک کیس نہیں آئے گا ہم نظرثانی نہیں کرسکتے۔ ہر انتخابات میں ایک ہی بات ہوتی، کسی نے آج تک نہیں کہا کہ الیکشن ٹھیک ہوا، ہارنے والا کہتا ہے انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہم ادارے کی قدر نہیں کرتے، کوئی غیر آئینی کام ہوا ہے تو سپریم کورٹ بالکل اڑا دے گی۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف صاحب کہہ رہے الیکشن کمیشن اتنا زبردست ادارہ ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے 2018 اور 2024 میں مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا فارمولا اور دستاویزات کل طلب کرتے ہوئے سماعت کل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔


ٹیگز :
متعلقہ خبریں