میانمار کے دارالحکومت ینگوں سمیت دوسرے بڑے شہروں میں ہزاروں افراد نے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد لگنے والے کرفیو کے خلاف بغاوت کردی اور سڑکوں پر آگئے۔
میانمار کے دارالحکومت ینگون میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے واٹر کینن اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا جس کے نتیجے چار افراد بشمول ایک خاتون زخمی ہوگئی۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کردی۔
یکم فروری کی فوجی بغاوت اور سویلین رہنما آنگ سان سوچی کی نظر بندی کے بعد میانمار میں ایک عشرے کے دوران پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے سول نافرمانی کی ہے، جس کے سبب اسپتال، تعلیمی ادارے اور سرکاری دفاتر میں کام شدید متاثر ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: میانمار میں فوجی بغاوت:آنگ سان سوچی اور دیگر رہنما زیر حراست
بین الاقومی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق میانمار کے دوسرے بڑے شہر مانڈیلے میں پولیس نے 27 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
میانمار کی فوج نے 2011 میں سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور 2015 کے عام انتخابات میں آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی تھی۔ تاہم اس عشرے میں میانمار کی فوج منتخب حکومت کی راہ میں روڑے اٹکاتی رہی ہے۔
یکم فروری کو فوجی بغاوت کے نتیجے میں میانمار کی منتخب حکومت کا ایک بار پھر تختہ الٹ دیا گیا اور نوبیل انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی اور دیگر رہنماؤں کو نظر بند کردیا گیا ہے اور یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ انہیں کہاں قید کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ملک میں گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے انتخابات میں این ایل ڈی نے حکومت بنانے کے لیے درکار نشستیں حاصل کر لی تھیں تاہم فوج نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
فوج نے کہا ہے کہ وہ ایک سال کے لیے ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کر رہی ہے اور اس حوالے سے فوج نے کمانڈر ان چیف من آنگ ہلاینگ کو ملکی اختیارات سونپ دیے گئے ہیں۔