شہر کراچی اور اس کے رہنے والوں کے لیے بسا اوقات بنیادی مسائل بھی ناقابل حل معمہ بن کر رہ جاتے ہیں جیسا کہ اس شہر کے کچرے کا معاملہ ہے۔ روشنیوں کا یہ شہر گزشتہ کئی ماہ سے کچرا کنڈی بن کر رہ گیا ہے، شہر میں جا بجا پھیلے انبار بلدیاتی حکومت کی بے حسی کا نوحہ پڑھ رہے ہیں جبکہ ناظم کراچی ہاتھ خالی ہونے کا رونا رو رہے ہیں۔ ایسے میں باران رحمت بھی گاہے بگاہے اپنی جھلک دکھا رہی ہے اور سوہان روح ثابت ہو رہی ہے۔ یہ بارش گندگی میں مزید اضافے کا باعث ہے۔
آج آپ پاکستان کے معاشی حب اور روشنیوں کے شہر کراچی کی جس شاہراہ سے گزر جائیں وہاں کچرے کے ڈھیر آپ کا استقبال کریں گے، فضاء میں ہر طرف تعفن کا رچاﺅ ہے، کچرے کے ڈھیروں پر بھنکتی مکھیوں، مچھروں اور مختلف النوع حشرات الارض نے پیٹ کے امراض، ڈائریا، گیسڑو اور ڈینگی کا مرض دے کر شہریوں کو اسپتالوں کا رخ کرایا ہوا ہے۔
کچرے کے ساتھ ساتھ کراچی کو اس وقت سیوریج کے نظام کی خرابی کا بھی سامنا ہے۔ ڈیفنس سے لے کر سرجانی تک ہر شاہراہ پر گٹر اُبلتے نظر آ رہے ہیں۔ ناظم کراچی کہہ رہے ہیں کہ نالوں پر قائم تجاوزات صفائی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یاد رہے کہ 2017 میں بھی بارشوں کے بعد ناظم کراچی کا کچھ ایسا ہی بیان سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے نکاسی آب کے خراب نظام کی نشاندہی کرتے ہوئے اس میں تبدیلی کا عندیہ دیا تھا لیکن تین سال گزرنے کے بعد آج بھی صورتحال وہی ہے۔
شہر کی مختلف آبادیوں اور سڑکوں پر بارش کے بعد صورتحال مزید خراب ہو چکی ہے، سڑکوں پر پڑنے والے گڑھوں کو بعض مقامات پر پتھراور ریتی سے بھر دیا گیا ہے لیکن اب بھی مرکزی شاہراہوں پر گڑھے موجود ہیں جس سے ٹریفک کو گزرنے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔ شہر میں اُبلنے والے گٹروں اور بیٹھنے والی سیوریج لائنوں کو واٹر بورڈ دن رات کام جاری رکھنے کے باوجود درست نہیں کرسکا۔
بعض علاقوں میں گلیاں سیوریج سے بھری ہوئی ہیں، مکھی مچھروں کی بہتات نے لوگوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ کئی علاقوں میں سیوریج کا پانی پینے کے پانی کی فراہمی کی لائنوں میں شامل ہو چکا ہے اور یہی سیوریج ملا پانی فراہم کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں علاقہ مکین خصوصا بچے اور بزرگ پیٹ کے امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ شہر کی ناگفتہ بہ صورتحال کو سیاسی اکھاڑہ بناتے ہوئے بلدیاتی، صوبائی اور وفاقی ادارے
اختیارات کی کھینچا تانی میں مصروف رہے۔ خدا خدا کر کے وزیراعلیٰ سندھ نے اس حوالے سے ایکشن لیتے ہوئے ”کلین مائی کراچی“ مہم کا آغاز کیا اور اس حوالے سے کام کرنے کیلئے ڈپٹی کمشنروں کو پانچ پانچ کروڑ روپے بھی
جاری کیے ۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی جانب سے اس مہم کی نگرانی کیلئے مقرر کئے جانے والے 18 وزراء اور معاون خصوصی بھی اپنے کام میں مصروف ہیں اور وزیراعلیٰ سندھ کو روزانہ کی رپورٹس بھی پیش کر رہے ہیں۔ موجودہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کافی متحرک سیاستدان ہیں۔ انہوں نے صرف مہم کے آغاز کے احکامات جاری نہیں کیے بلکہ خود بھی فعال ہوئے اور دفعہ 144 کے تحت سڑکوں پر کچرا پھینکنے، پرانی عمارتوں کا ملبہ روڈ پر پھینکنے، تفریحی مقامات اور ساحل سمندر پر کچرا پھینکنے اور پان تھوکنے والوں کی گرفتاری کا حکم دیا اور اس ضمن میں سکھن تھانے کی حدود میں پہلی گرفتاری عمل میں بھی آ گئی۔ صد شکر کہ میئر کراچی بھی اس مہم میں تعاون پر آمادہ ہیں۔
یاد رہے کہ قبل ازیں بھی شہر قائد میں صفائی کی کئی مہمات شروع کی گئیں مگرانہیں پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا جا سکا جس کی وجہ سے آج تک کراچی کچرے کی لپیٹ میں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کراچی ”کچراچی “ آخر بنا کیوں؟ اسے شہر کی انتظامیہ کی ناکامی ہی قرار دیا جاسکتا ہے کیوں کہ بلدیہ عظمیٰ اور شہر کی مختلف ذیلی بلدیات کے پاس اس حوالے سے عملہ، معمول کے مطابق کچرا اٹھانے والی گاڑیاں، ان کے لیے پیٹرول اور صفائی کے لیے مطلوبہ سامان اور آلات سب کچھ موجود ہیں۔
گاڑیوں کی دیکھ بھال کی مد میں ماہانہ بھاری رقم بھی خرچ کی جاتی ہے اس کے باوجود روزانہ کی بنیاد پر شہر کی صفائی نہیں کی ہوتی، اگر روزمرہ صفائی کا عمل معمول کے مطابق ہوتا رہتا تو ایسی گندگی کا سوال ہی نہیں تھا۔
بہرکیف وزیراعلیٰ سندھ نے نہ صرف فنڈز فراہم کر دیے بلکہ ڈی ایم سیز کی مدد کا بیڑہ بھی اٹھا لیا ہے تو ہر سطح پر ان کے ساتھ تعاون انتہائی ضروری ہے۔ کراچی سے کچرا اُٹھانا شہری حکومت کی ذمہ داری ہے جو انہیں ہی ادا کرنی چاہئے ‘ کسی بھی وجہ سے وہ کوتاہی کررہے ہیں اور کوئی ان کی مدد کرنے پر آمادہ ہے تو شہری و بلدیاتی کومتوں
کو ان کی ہر ممکن مدد کرنی چاہئے اور کسی بھی سیاست سے بالاتر ہوکر اس مسئلے کے حل کی کوشش کرنی اہئے ۔اس کےساتھ ساتھ کچرا پھیلانے والے عناصر سے بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔