کراچی، کچرا اور سیاست

آوازہ

بارہ پندرہ برس ہوتے ہیں، میاں محمود عمر لاہور سے کراچی تشریف لائے۔ میاں صاحب فی الاصل تو شاعر تھے لیکن وسیع و عریض جائیداد اور بے اندازہ کاروبار کی وجہ سے ان کی توجہ بکھر گئی۔ مادیت کے ان”اثرات ِ خیر و بد“ کے باوجود ان کے مزاج کی نفاست، معاملات کو غیرروائتی انداز سے سمجھنے اور گردو پیش کا مشاہدہ باریک بینی سے کرنے کی عادت نے انھیں عام لوگوں میں بہت ممتاز کر دیا تھا۔ کوئی سبب رہا ہو گا کہ آنے کے فوراً بعد ہی میں انھیں لے کر ہاکی اسٹیڈیم پہنچا۔ ہم کراچی والوں کی نگاہ میں اسٹیڈیم کی عمارت اور ارد گرد کا علاقہ بہت خاص اور دیکھ بھال کے اعتبار سے شہر کے مراعات یافتہ طبقات میں شمار ہوتا ہے۔

میاں صاحب دیکھتے ہی گاڑی سے اتر پڑے اور کہا کہ یار، اس عمارت پر بڑا ستم ہوا ہے۔ ان کی بات سمجھ میں نہ آ سکی۔ اچھا بھلا اسٹیڈیم اور شان دار علاقہ، ستم والی کوئی بات سمجھ میں نہ آئی تو عرض کیا کہ بھائی جان! آپ ویسے ہی بات کا بتنگڑ بنا رہے ہیں۔ سن کر مسکرائے اور اسٹیڈیم کے شاہراہ فیصل والے کونے کے قریب جا کھڑے ہوئے، کہا کہ یہ دیکھو دیوار میں تریڑ پڑتی صاف دکھائی دیتی ہے۔ اسٹیڈیم ہی کے کسی دفتر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ پلستر گر چکا ہے اور دیوار ادھڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ دو روز کے بعد ان کی واپسی تھی۔ انھیں ایئرپورٹ لے کر پہنچا تو ایک خاص ادا کے ساتھ دامن چھڑا کر بھاگتے ہوئے ٹرمنل میں داخل ہوتے ہوئے کہا کہ بھاگ بھئی محمود، شہرآسیب سے بھاگ۔

جو بات کوئی دوہزار چار یا پانچ میں سمجھ میں نہ آ سکی، آنے والے برسوں میں اس کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ میرے بچے اس زمانے میں ملیر کینٹ کے ایک اسکول میں پڑھا کرتے تھے۔ انھیں لانے لے جانے کے لیے مجھے روزانہ صفورہ چوک سے گزرنا پڑتا۔ یہ جگہ کسی زمانے میں ایک گاؤں یا گوٹھ سمجھی جاتی تھی لیکن 2002 کے آس پاس جب بدامنی کی وجہ سے ضلع وسطی کی طرف سے آبادی کی منتقلی اس جانب شروع ہوئی تو یہ چوک بتدریج ایک فعال تجارتی مرکز کی شکل اختیار کرنے لگا۔ اس چوک کے وسط میں واقع ایک قطعہ سبز پر اس زمانے کی میونسپل انتظامیہ کے کسی شاعر مزاج چیئرمین نے ایک یادگار تعمیر کرا دی۔ یادگار بھی کیا تھی، ایک بڑی سی صراحی تھی جس میں سے آب مقطر قطروں کی شکل میں بہتا ہوا نیچے پیالے میں گرتا دکھایا گیا تھا، دل موہ لینے والا یہ منظر ایک بڑی سی تسبیح کے ہالے میں تھا جس میں اسمائے حسنیٰ چمک رہے تھے۔ علاقے کے لوگ صبح شام اس چوک سے گزرتے اور اس منظر کو دیکھ کر شاد کام ہوتے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ جگہ متعفن ہوتی چلی گئی۔

سبب اس کا یہ تھا کہ اس علاقے کے جتنے بھی سینیٹری ورکر تھے، وہ ارد گرد کی صفائی کر کے ساری گندگی اس قطعے میں لا پھینکتے جو کبھی اپنی ندرت کی وجہ سے جاذب نظر تھا اور لوگ باگ اس کے آس پاس کھڑے ہوکر تصویریں بنایا کرتے۔ یہ کچرا بڑھتے بڑھتے ایک بڑے ڈھیر کی شکل اختیار کر گیا اور بدبوئیں یہاں سے ایسے پھوٹتیں کہ گزرنا مشکل ہو جاتا۔ عین ان ہی دنوں جب صفورہ چوک کا یہ علاقہ تیزی کے ساتھ گندگی کے ایک عظیم الشان ڈھیر میں تبدیل ہوتا جا رہا تھا، شہر کے دیگر مقامات پر بھی ایسے مناظر عام دکھائی دینے لگے اور کچرے کے لیے مخصوص جگہوں کے علاوہ بعض نئی نئی جگہیں بھی ظہور میں آنے لگیں۔ اس کی ایک صورت بڑی دلچسپ بھی ہے اور عبرت انگیز بھی۔

ملک کے دیگر حصوں کی طرح فاسٹ فوڈ کراچی میں بھی بہت مقبول ہے اور ان کے مراکز ہر وقت خریداروں ے بھرے رہتے ہیں لیکن سفید پوشوں کے مسائل بڑے گھمبیر ہوتے ہیں۔ جیب ہمہ وقت ایسی ”عیاشی“ کی اجازت نہیں دیتی لیکن بچوں کی فرمائش بھی نہیں ٹالی جا سکتی۔ لوگو ں کی اس مجبوری کے پیش نظر کاروباری لوگوں نے شہر کے مضافاتی علاقوں میں فاسٹ فوڈ کے چھوٹے چھوٹے مراکز قائم کر لیے ہیں، ان میں سے بعض کی ریسیپیز تو بہت کمال کی ہیں اور آؤٹ لیٹ بھی صاف ستھرے اور بیٹھنے کے قابل ہوتے ہیں لیکن عبرت کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنا کچرا ڈالنے کے لیے تن آسانی سے کام لیتے ہیں اور ساری گندگی قریب کی کسی سنسان گلی، کسی عمارت کے پچھواڑے یا کسی کھلے پلاٹ کی زینت بنا دیتے ہیں۔

گلشن اقبال میں یونیورسٹی روڈ پر فاسٹ فوڈ کی ایک بہت مشہور دکان ہے، ان لوگوں نے کمال یہ کیا ہے کہ اپنا سارا کچرا آنے اور جانے والی سڑکوں کے درمیان گرین بیلٹ میں پھینکتے ہیں۔ یہ عمل گزشتہ کم از کم آٹھ سال سے جاری ہے۔ شہر میں آٹھ دس برسوں سے کچرا اٹھانے کا عمل قریب قریب ختم ہو چکا ہے، اس لیے اس جگہ پر یہ گرین بیلٹ ایک چھوٹی موٹی دیوار کی شکل اختیار کر چکی ہے اور بدبو کی وجہ سے اس کے قریب سے گزرنا مشکل ہے۔

کراچی میں گندگی کا معاملہ متعلقہ ادارو ں کی لاپروائی کی وجہ سے کسی قدر نظرانداز تو ہو ہی رہا تھا لیکن اس میں اصل خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب گزشتہ بلدیاتی اداروں کی مدت عمل ختم ہوئی۔ان کے انتخابات آخری بار جنرل مشرف کے زمانے میں ہوئے تھے جن کے نتیجے میں ایم کیوایم کے مصطفیٰ کمال ناظم منتخب ہوئے تھے۔ اس بلدیاتی حکومت کے خاتمے کے بعد کراچی صحیح معنوں میں لاوارث ہو گیا۔ بلدیاتی اداروں کی نگرانی کا انتظام چوں کہ ختم ہوگیا تھا، اس لیے گھوسٹ ملازمین کی تعداد میں اضافہ ہوا اور شہر میں گندگی کے ڈھیر لگتے چلے گئے۔

اس دوران شہر میں گینگ وار زوروں پر پہنچ گئی جس کی ابتدا لیاری سے ہوئی تھی۔ اس جنگ میں بلامبالغہ درجنوں افراد جان سے گئے۔ یہ وہی زمانہ ہے جس میں یہ کہاوت عام تھی کہ نیپا سے گئے چھیپا سے آئے (نیپا ایک جگہ اور چھیپا کفن دفن کا انتظام کرنے والی این جی او)۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم اس جنگ میں گردن گردن تک دھنس گئیں جس کے نتیجے میں شہر میں صفائی کا نظام مزید ابتر ہو گیا۔ یہی کچرا ہے جو آج سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔ یہ معاملہ مزید پیچیدہ اس لیے ہو گیا ہے کہ شہر کے اسٹیک ہولڈر اس معاملے کی سنگینی کو پورے طور محسوس کر رہے ہیں اور نہ انھیں اس چیلنج سے نمٹنے کی حکمت معلوم ہے۔ اس پرمستزاد نمائشی اقدامات جن کی وجہ سے معاملہ مزید بگڑ گیا ہے۔ مطلب یہ کہ جس کچرے کے انبار برس ہا برس محنت کر کے لگائے گئے ہیں، اسے صاف کرنے کے لیے دوگنا محنت درکار ہو گی، معلوم نہیں اتنی ہمت کون رکھتا ہو گا؟

ٹاپ اسٹوریز