مجھے دو ٹوک وارننگ مل چکی تھی ” انگوٹھا نا لگایا تو سب کچھ برباد ہو جائے گا ”
پاکستان اور جنوبی افریقا کا میچ جاری تھا، خوابوں کا دیوتا وہاب ریاض بے چارے عامر کی گیند پر کیچ چھوڑ چکا تھا ۔۔۔۔۔ لوگ سر پیٹ رہے تھے اور وہاب ریاض ایسے ہنس رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو ” میرے ٹھینگے سے ”
یہ ” ٹھینگا” ہم سب پر حاوی ہے۔ زبردست کا ہو تو سر پر، بیوی کا ہو تو دل و دماغ ہر ۔۔۔ لیکن پولیس کا بھی ٹھینگا ہے اور سیاست دان کا بھی ۔۔۔ کبھی کبھی تو یہی ٹھینگا دانش اور درویش کو الگ کر کے گداگر کو صاف دکھا دیتے ہیں۔
ایک زمانے میں صدر چیف ایگزیکٹو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر چیف آف آرمی سٹاف ضیا الحق کا ٹھینگا مشہور تھا ۔۔۔۔ کچھ لوگ اسے ” اینکر ” بھی کہتے تھے۔ ٹی وی والے اینکر نہیں جو ڈاکٹر بنتے ہی اینکرنگ کرنے لگتے ہیں بلکہ تین نوکیلی سلاخوں والا بھاری وجود کا ” لنگر ” جو بحری جہازوں کو اپنی جگہ قائم رکھنے کے لئے ” ڈالا ” جاتا ہے۔ ضیا نے کمال کیا ۔۔۔ ایسی نرسری بوئی کہ ہر طرف کیکر کے پودے سر اٹھانے لگے۔ مخالف نرسری کے ہر پودے کو جنرل جیلانی اور جنرل ضیا کے کیکر کھانے لگے۔ ہر شخص جیل چلا گیا اور یہ وہ دور تھا جب ہمیں جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے لکھاری اور کالم نگار ابراہیم جلیس نے کالم لکھنے کے لئے کہا ۔۔۔۔ وہ تھے ایڈیٹر ۔۔۔۔۔ ہم ان کا کالم وغیرہ وغیرہ بچپن میں اپنے محلے کے ” مرزا جی ” کو سنایا کرتے تھے ۔۔۔۔ جو نابینا ضرور تھے لیکن بے بصیرت نہیں تھے ۔۔۔ ہر شام عصر کے بعد دروازے پر دستک ہوتی ۔ مرزا جی صبح کسی سے اخبار کی سرخیاں سن چکے ہو تے تھے تو ہمارے ذمہ کالم ہی رہ جاتے تھے۔
صحن کی کرسی پر چائے پیتے ہوئے وہ پورا کالم سنتے ۔۔۔ بیچ میں ” ہوں ہاں اور واہ ” کے ہنکارے سنائی دیتے رہتے۔ وہ ہمیں تبھی ٹوکتے جب ہم تلفظ کی کوئی غلطی کرتے۔ مرزا جی علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے ۔۔۔ نابینا بعد میں ہوئے ۔۔۔۔
تو جلیس صاحب نے ہی کالم کا نام رکھا ” میرا کالم ” ۔۔۔۔ اس دور میں ہمارے بال کندھوں تک تھے ۔۔۔۔مشتاق کارٹونسٹ ” سے جلیس صاحب نے ہمارے چہرے کی صرف آوٹ لائین لے کر زلفیں بنوائیں اور اس چہرے پر ” میرا کالم ” لکھ دیا۔
یوں مہربان زبردست کا ٹھینگا سر ہر رہا ۔ خدا کی بستی کے خالق عظیم شوکت صدیقی نے فکشن اور اداریہ نویسی کا گیان دیا ۔۔۔ احفاظ رحمان نے فیچر سکھانے ۔ کام رپورٹنگ تھا مگر خالد علیگ مناظر صدیقی جیسے لوگ ڈیسک پر ” طلب ” کر لیتے۔ بابا ظہیر کاشمیری جب بھی کراچی آتے تو ڈکشن، فکشن، نیوز آور رائٹنگ کے سارے راز اگل دیا کرتے تھے۔ یہ سب زبردست تھے جن کا سایہ ہمارے سر ہر تھا ۔
لیکن اس ملک پر جس زبردست کا ٹھینگا بھوت بن کر راج کر رہا تھا اس کے کیکر اپنے کھونٹے مضبوط کرتے رہے اور اس ملک کو دیمک لگاتے رہے۔
دو ہفتے بعد ہی ہمارے ایک کالم ” کٹھ پتلی تماشا ” پر ابراہیم جلیس صاحب کو صدیق سالک کا فون آ گیا ۔۔۔۔ جلیس صاحب حسب معمول قہقہے لگاتے ہوئے آئی ایس پی آر چلے گئے جب واپس آئے تو ان کے قہقہے اور جاندار تھے۔ کہنے لگے سرکاری طور پر وارننگ دی گئی ہے مگر غیر سرکاری طور پر بہت پسند کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔اور بھینگی کٹھ پتلی تو ہٹ ہو گئی۔
پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے بلکہ پانی کی قلت ہو گئی ہے۔ ایک زبردست سابق چیف جسٹس پانی فنڈ جمع کر رہے ہیں۔ لیکن ہر شعبے میں کیکر کے پیڑ اور زبردست کے ٹھینگے موجود ہیں جنہوں نے اس ملک کو اپنے ظالم ٹھینگے کے نیچے ہی رکھا ہے۔
معیشت، تعلیم، ترقیات، انسانی حقوق، ہر جگہ کیکر زیر پھیلا رہا ہے۔ جمہوریت کے نام پر وہ غیر قانونی کام کرائے گئے کہ جمہوریت بھی چلا اٹھی ۔۔۔۔” معاف کر دو مجھے ”
بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ملکی نظام اتھل پتھل ہے ۔۔۔۔ اس ملک کو ایک بار زبردست کے ٹھینگے سے نجات کی ضرورت ہے ۔۔۔ ان لوگوں سے حساب کی ضرورت ہے جو بے دریغ ملک کو لوٹتے رہے ۔۔۔۔ شیر مادر سمجھ کر ۔۔۔
بظاہر ملک میں نیا آغاز ہو رہا ہے۔ شکایتیں بہت ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی ۔۔۔ ڈالر مہنگا ہونے اور بعض وزرا کی ” بے سری” باتوں کی۔ صحافت بھی تھپڑ گھونسے لات کی زد میں ہے ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ اس حکومت کو وہ پانچ سال ملنے چاہیں جس مدت کے لئے اس کا منتخب کیا کیا ہے ۔۔۔۔ ممکن ہے یہ کچھ کر گزریں ۔۔۔ ممکن ہے کچھ اچھا ہو جائے ۔۔۔ ممکن ہے بقول بھٹو ” سورج کو بادلوں کے چنگل سے نجات دلانی ہے ” تو بلاول بھٹو زرداری کو بھی صرف یہ سوچنا ہو گا کہ جمہوریت کے لئے ان کا کمٹ منٹ کتنا شدید ہے۔ ہمارے ایک انتہائی سینئرصحافی جناب نذیر ناجی کے بقول بلاول ہی عمران خان کے قد کا بن سکتا ہے ۔
تو 2002 کے بعد یہ پہلا کالم حاضر ہے۔ مزید دھمکیاں ہیں کہ آج بدھ ہے اور انگوٹھا لگانے بنک جانا ہے ۔۔۔۔ ورنہ اکاونٹ معطل ہو جائے گا۔
زبردست کے ٹھینگے سے زیادہ آج بنک کا انگوٹھا ضروری ہے ۔۔۔۔ دیکھ لیتے ہیں اسے بھی ۔