تھپڑ کیوں پڑا؟

تھپڑ کیوں پڑا؟

’میں نے ہر فورم پر درخواست دی لیکن کسی نے کوئی کارروائی نہیں کی، ہر معاملے کی کوئی حد ہوتی ہے جب مجھے موقع ملا تو میں نے ایک تھپڑ جڑ دیا۔‘

یہ الفاظ ہیں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے جنھوں نے چند روز قبل شادی کی ایک تقریب کے دوران ایک سینئر صحافی کو تھپڑ مار دیا تھا۔

یہ کوئی پہلا موقع یا کوئی واحد واقعہ نہیں ہے، حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ ایک صحافی کو ٹی وی پروگرام کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ایسے واقعات کا کسی بھی صورت میں دفاع نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ ہماری توجہ ایک اور جانب بھی مبذول کراتے ہیں اور وہ ہے میڈیا ریگولیشنز کا معاملہ۔

اب یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ میڈیا کے لیے کوئی قواعد و ضوابط نہیں، اگر ہیں تو ان پر عمل نہیں ہوتا۔ یہ تاثر انتہائی پریشان کن ہے کیونکہ ہم نے دیکھا کہ اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔

رواں برس ہی ہم نے دیکھا کہ حکومت پاکستان نے تاریخ میں پہلی بار برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک خبر کے بارے میں ملک کے میڈیا ریگولیٹر آف کام کو ایک تفصیلی شکایت بھیجی ہے۔ اس کے ساتھ حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ اگر بی بی سی نے معافی نہیں مانگی تو وہ معاملہ عدالت میں بھی لے جائے گی۔

خیال رہے کہ  بی بی سی نے ایک خبر شائع کی تھی جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ پاکستانی ریاست انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ حکومت پاکستان نے نہ صرف اس خبر کی تردید کی بلکہ اپنی تفصیلی شکایت میں خبر دینے والے صحافی کے بارے میں موقف اختیار کیا کہ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر نظر ڈالنے سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ وہ ایک مخصوص نظریہ رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے پیغامات سے  ان کی جانبداری اور تعصب واضح ہوتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسی حکومت کے ایک وزیر نے پاکستانی صحافی کو، جو ان کے بقول جھوٹی خبریں دے رہے تھے، تھپڑ دے مارا لیکن اس کے برعکس حکومت پاکستان نے بی بی سی کے خلاف برطانیہ میں شکایت اور قانونی راستہ اپنانے کا فیصلہ کیوں کیا ہے؟؟

کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ حکومت پاکستان کو یہ معلوم ہے کہ برطانیہ میں میڈیا ریگولیٹر سختی سے قواعد و ضوابط پر عمل کراتا ہے؟

عدالتیں جھوٹی خبروں پر سخت ایکشن لیتی ہیں۔ شاید حکومت پاکستان کو یہ بھی معلوم ہو کہ رواں برس ہی بی بی سی کو ایک خبر میں یوکرائن کے صدر کے بارے میں غلط دعوی کرنے پر سبکی کے ساتھ بھاری جرمانہ بھی دینا پڑا اور اسے کسی نے آزادی صحافت پر حملہ قرار نہیں دیا۔

اس لیے حکومت پاکستان کو بھی پوری امید ہو گی کہ انھیں انصاف ملے، اگر بی بی سی کی خبر میں مبالغہ ہے، صحافی کا اپنا تعصب سچ کی راہ میں آڑے آ گیا ہے یا جو بھی مسئلہ ہے، متعلقہ فورم سے اس کے خلاف ایکشن کی توقع کی جا سکتی ہے۔

اگر پاکستان میں بھی شروع سے ہی میڈیا قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل درآمد ہوتا، لوگوں کا ریگولیٹر پر بھروسہ ہوتا ، اگر پاکستان میں بھی آف کام ہوتا تو شاید کبھی کسی صحافی کو تھپڑ نہ پڑتا ۔ یہ تھپڑ صحافت نہیں میڈیا ریگولیشنز کے ذمہ داروں کے منہ پر پڑا ہے۔

ٹاپ اسٹوریز