بس پھر یوں ہوا کہ بیٹی کو ایک چھوٹی دستاویزی فلم بنانے کے ریفرنس کے لیے اپنی آرکائیوزسے ویژول، دوسری کو پریزینٹیشن کے لئے دورفرعون کے لباس اور تیسری کو اپنی 5 سالہ بیٹی کے لئے وادی کیلاش کا لباس سیلیکٹ کرنا تھا۔ ہم نے بہت کہا کہ یہ سب چیزیں منتخب کرلو سیلیکٹ نا کرو کہ اس میں خطرہ بے شمار اور خبر نا ہونے کے برابر ہے لیکن تینوں کو سلیکٹ ہی کرنا تھا ہماری جان اس وقت چھوٹی جب اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے دو دو مرتبہ اس لفظ کو ممنوع قرار دے دیا۔ ہم نے سکون کی سانس لی لیکن سوچتے رہ گئے کہ تاریخ کس جج کو کیا مقام دے گی، کس اسپیکر کو کیا جگہ ملے گی اور کس حکمران کو کس جگہ بٹھایا جائے گا ۔۔۔۔۔
یہ عجیب لفظ ہے ۔۔۔۔۔سلیکٹ۔۔۔۔
ہمیں یاد ہے کہ ہمارے لئے یہ لفظ ہمیشہ خوشیاں لایا ۔۔۔اسکول کی سلیکشن لسٹ میں نام آ گیا ۔۔۔کالج میگزین کا ایڈیٹر سلیکٹ ہو گیا ۔۔۔۔ ہمیں شادی کے لئے سسرال والوں نے اور امی نے لڑکی کو سلیکٹ کر لیا ۔۔۔۔۔ پہلی بیٹی کی شادی لے لیے لان کا سیلیکشن۔۔۔۔۔۔۔بہر کیف طویل فہرست ہے ہماری سلیکٹ لائف کی ۔۔۔۔
سیاست میں بھی سب کبھی نا کبھی سلیکٹ ہوئے۔ قائداعظم نے لیاقت علی خان کو پہلے ہی بطوروزیر اعظم سیلیکٹ کیا ہوا تھا ۔۔۔۔ایوب خان نے بھٹو کو وزیر اور اعلی کارکردگی پر وزیر خارجہ سلیکٹ کیا۔۔ ۔پھر ضیا الحق نے شوری کے لئے اراکین کو سیلیکٹ کیا ۔۔۔جونیجو صاحب کو وزیر اعظم سلیکٹ کیا ۔۔۔
ایک زمانے تک آئیں میں یہ شق رہی کہ صدر وزیر اعظم سلیکٹ اور نامزد کرے گا ۔۔۔۔۔غلام اسحاق نے بے نظیر اور نے نظیرکو ہٹا کر نواز شریف کو سیلیکٹ کیا ۔ اور یہ مشرف تھے جنہوں نے عمران خان کو جعلی ریفرنڈم میں چیف پولنگ ایجنٹ مقرر کیا۔ یہ بھی سنا ہے کہ شجاع پاشا نے دوستی کے لئے عمران خان کو سیلیکٹ کیا تھا ۔۔۔۔
تو پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ۔۔۔۔
پہلی بار جب بلاول بھٹو نے، جن کو بے نظیر بھٹو نے بذریعہ وصیت جائے داد کے ساتھ پارٹی کی سربراہی کے لئے بھی منتخب کیا۔۔۔۔وزیر اعظم عمران خان کو سلیکٹ وزیر اعظم کہا تو شاہ محمود قریشی کے ساتھ عمران خان نے بھی زور دار ڈیسک بجائے۔۔۔۔گھپلا تب ہوا جب شہباز شریف سمیت پوری حزب اختلاف حتی کہ مریم نواز اور مریم اورنگزیب بھی سیلیکٹ وزیر اعظم کہنے لگیں۔
پاکستان میں بہت سے لوگوں نے بہت سی پابندیاں لگائیں ۔ ضیا الحق نے بھی لفظ بھٹو پر پابندی لگا دی تھی اور پیپلزپارٹی کے نام پر بھی اور سنسر آفیسر پورے وقت سطر سطر میں یہ لفظ ڈھونڈتا رہتا تھا ۔۔۔۔۔وہ تو بھٹو کو” پھانسی ” ہو گئی ورنہ یہ نام کبھی اخبار میں نہیں چھپتا ۔۔۔۔۔
اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر ۔۔۔۔ایوب خان کے پوتے عمرایوب نے ایوان میں ” سیلیکٹ” پر پابندی لگوا کر ہنسنے کا اچھا سامان کر ڈالا لیکن کہتے ہیں کہ تخلیقی صلاحیت پابندی ہی میں کھل کر سامنے آتی ہے۔ جب سنسر کے زمانے میں منو بھائی کے کالم کے عنوان ” کوئل کی کوک” پر پابندی نہیں لگتی تو منو بھائی اس کے بعد بہت زبردست کالم نہیں لکھتے ۔ ہمارے اخبار کے شمارہ اول سے اداریے کے اوپر قرآن شریف کی ایک آیت کا ترجمہ لگا ہوتا تھا ۔۔۔۔۔” اور فرعون زمین پر بڑا بن بیٹھا۔۔۔۔”
سنسر آفیسر ہی نہیں سیکریٹری انفارمیشن تک نے اس کو ضیا کے خلاف قرار دے دیا ۔۔۔وہ تو بیچ بچاؤ ہو گیا ورنہ ہمارے کاتب صاحب کسی افسر کا سر پھاڑ دیتے۔
زبانیں فروغ پاتی ہیں اور سوچ بھی ۔
سیلیکٹ کا لفظ انگریزی کا بھی نہیں ۔ انگریزی نے بہت سے الفاظ ادھارلیے ہیں اردو کی طرح ۔۔۔۔یہ لاطینی لفظ ہے ۔۔۔1560 میں لاطینی سے انگریزی میں آیا ۔۔۔۔اس کو اسپیکر ڈکشنری سے نکال سکتے ہیں نا اسمبلی سے ۔۔۔۔اپوزیشن نے کٹوتی کی ہر تحریک پر ” میں تحریک نمبر 11 سیلیکٹ کرتا ہوں /کرتی ہوں ۔۔۔کہہ کر رولنگ کا خوفناک مذاق اڑایا ۔۔۔۔آج کل میں خود اسپیکر اپنی رولنگ کا مذاق اڑاتے پھریں گے اور خود ہی کہیں گے ۔۔۔۔” بل سلیکٹ کمیٹی کے حوالے کیا جاتا ہے ” ۔
پھر بات سلیکٹ کی ہے تو اگر بھارت نے انگلینڈ کے خلاف ہار سیلیکت کی تو یہ اس کا اپنا ظرف ہے ہارنا مقدر میں ہوتا ہے اور یار تے ہوئے جیتنا بہادروں کا جیسا کہ پاکستانی ٹیم نے افغانستان سے میچ جیت کر کیا ۔ بھا رت سیاسی طور پر پاکستان کو الگ تھلگ کرنا چاہتا ہے کرکٹ بھی نہیں کھیلنا چاہتا ۔ اس کے لئے اسے اگر گوروں سے ہارنا بھی پڑ جائے تو بے غیرتی سہی مگر حکمت عملی ہے اور یہ اس کی سلیکٹ پالیسی ہے ۔ ۔مجھے یہ اچھا لگا کہ شکست خوردہ بھارتی جیتنے والوں سے بہت اچھی طرح مل رہے تھے۔ ان افغان سٹے بازوں کی طرح خون خرابے پر نہیں اتر آئے جو پاکستان سے میچ ہارتے وقت موجود تھے۔