جمہوریت کا مطلب ہے، عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے حکومت اور عوام کے لیے حکومت۔ اقوام عالم پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو دور جدید میں ہر ملک نے اپنے مفادات کے تابع رہ کر اس اصطلاح کا مطلب تلاش کر لیا ہے۔
ہانگ کانگ میں جمہوریت پسند مظاہرین تقریباً چھ ماہ سے اپنے جمہوری حقوق اوراپنے ملک میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے جدوجہد کر رہے ہیں، مگر ارضی فاصلے کے لحاظ سے وہاں سے بہت دور واقع امریکی کانگریس نے کثرت رائے سے ہانگ کانگ ہیومن رائٹس اینڈ ڈیموکریسی ایکٹ منظور کر ڈالا ہے۔ ریبپلکن سینیٹرز مارکو ربویو اور ٹیڈ کروز کے پیش کردہ اس بل کے تحت امریکی حکومت نے ہانگ کانگ میں جمہوری حقوق کے لیے ہونے والے احتجاج کی حمایت کا عزم ظاہر کیا ہے، ہانگ کانگ میں سیکورٹی فورسز کے زیر انتظام آنسو گیس، ربر کی گولیوں اور دیگر ساز و سامان کی فروخت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ انسانی حقوق اور جمہوریت کے فروغ سے متعلق ا س قانون کے تحت امریکہ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ہانگ کانگ میں جمہوری آزادی کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف اقداما ت پر چینی حکام پر پابندیاں لگا سکے گا۔ اس نئے قانون میں امریکی محکمہ خارجہ کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ سالانہ بنیادوں پر تصدیق کرے کہ آیا ہانگ کانگ کو اتنی خودمختاری حاصل ہے کہ امریکہ اس کے ساتھ تجارتی روابط برقرار رکھ سکے گا؟ یہ وارننگ بھی دی گئی ہے کہ اگر ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رہیں تو اقتصادی پابندیاں بھی عائد ہو سکتی ہیں۔
اگرچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین کے ساتھ تجارتی مذاکرات متاثر ہونے کے خدشات کے پیش نظر ابتداء میں اس بل پر دستخط کرنے سے کترا رہے تھے اور ویٹو کرنے کی دھمکی بھی دی، لیکن کانگریس میں بل کو مطلوبہ ووٹ حاصل ہونے کے بعد اس کا راستہ روکنا ممکن نہ رہا ۔امریکی صدرنے بل پر دستخط کرنے کے بعد امید ظاہر کی ہے کہ چین اور ہانگ کانگ دیرپا امن اور خوشحالی کے لئے باہمی اختلافات کو ختم کرسکیں گے۔
ہانگ کانگ میں مظاہرین کے حق میں امریکی بل کی منظوری پر چین نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ چینی حکومت نے نہ صرف جوابی اقدامات کااعلان کر دیا ہے بلکہ قانون کو انتہائی مکروہ اور مذموم عزائم سے بھرا ہوا قرار دیا ہے۔ بیجنگ میں تعینات امریکی سفیر کو طلب کر کے احتجاج بھی ریکارڈ کرایا گیا ہے۔ اب یہاں یہ سمجھنا ضرروی ہے کہ ہانگ کانگ کیوں احتجاج کی بھٹی میں جل رہا ہے۔ دیگر مطالبات کے ساتھ ساتھ وہاں کے مظاہرین کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ اُن قوانین کو ختم کیا جائے جن سے اُن کی جمہوری آزادی اور خودمختاری متاثر اور چینی کمیونسٹ نظام کی گرفت مضبوط ہوتی ہے۔
پہلی نظر میں تو جائزہ لیں تو امریکی کانگریس میں منظور کردہ یہ بل بہت زبردست نظرآتا ہے۔ ہانگ کانگ وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ اظہار رائے اور اجتماعی احتجاج کی آزادی حاصل ہے۔ جہاں تک ہانگ کانگ میں ترقی پسند سرگرمیوں کا تعلق ہے تو زیادہ تر باشندوں کی خواہش ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح انہیں بھی حقوق مل سکیں۔ 24 نومبر کو ڈسٹرکٹ کونسل الیکشن کے مقابلوں میں مختلف حلقوں میں لوگوں نے جمہوریت پسند امیدواروں کو واضح برتری سے کامیاب کرایا ہے ۔ گہری نظر سے جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکی کانگریس میں منظور کردہ یہ بل اظہار رائے کی سوچ کے دہرے معیار کا عکاس ہے جس نے چین اور مغرب کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور یہ سوچ دونوں طرف کی سیاسی اشرافیہ کے اندر موجود ہے۔
اگرچہ ترقی پسند متبادل بیانیہ اس تنازعہ کی ہیت کو تو بدل کر رکھ دے گا لیکن اس بل سے تو قوم پرست نقطہ نظر کو مزید تقویت ملے گی۔ چین اور مغرب نے اپنے اپنے طور پر جو بیانیہ اختیار کیا ہے وہ بھی ایک دوسرے کا متضاد نظر آتا ہے۔ مغرب والے سمجھتے ہیں کہ چین اپنے خودساختہ جمہوری خول کے اندر بند ہے، اس کی نظر میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا تحفظ ہی اصل جمہوریت اور اس کے تحت نظام حکومت ہے۔ دوسری طرف چین کے نزدیک جمہوریت اورآزادی اظہار رائے کا مطلب الگ ہے۔ بیجنگ اس تصور کا ایک دھندلا سا عکس پیش کرتا ہے۔ اس کے فلسلفے میں قومی خودمختاری اور وقار کو ہی مرکزی حیثیت حاصل ہے اور وہ اسی اصول کے تحت اپنے نظریات کا دفاع بھی کرتا ہے۔ ان دونوں نظریات کے درمیان ہانگ کانگ کے جمہوریت پسند لوگ مغربی انداز فکر کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ اب چاہے کوئی انہیں ہیرو سمجھے یا غدار، اس سوچ کے دونوں زاویوں کو مکمل طور پر جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا۔
اگر امریکہ کی طرف نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے اس امید پر چین کے خلاف محاذ کھڑا کر لیا ہے کہ اب یہ معاملہ کھل کر دنیا کے سامنے آ جائے گا اور امریکی تسلط کو اقوام عالم پر مزید دوام حاصل ہو گا۔ واشنگٹن پوسٹ کے معروف کالم نگا ر ڈیوڈ لگناٹیوس لکھتے ہیں” ہو سکتا ہے امریکہ میں سیاسی لوگ ناقابل اعتبار اور مشکوک ہوں، تاہم وہ خود سے زیادہ تو دوسروں کا سوچتے ہیں اور اُن کا بھلا چاہتے ہیں، اس وقت چین کے حوالے سے درپیش چیلنج دراصل ملک کو ایک نکتے پر متحد کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، مزید یہ کہ چین کا مدعا ناراض اور غیر مطمئن امریکی شہریوں کو دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ اُن عوامل پر غور کر سکیں جن پر اُن کے روشن اور محفوظ مستقبل کا انحصار ہے”۔ امریکی معاشرے کے اندر چین کے خلاف پنپنے والا یہ بیانیہ ہمیں شعوری طور پر سرد جنگ کی طرف دھکیلتا جا رہا ہے۔
معاشی عدم مساوات کے خلاف جیو پولٹیکل جدوجہد، منظم نسل پرستی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو ترجیح دینا اس بات کا اشارہ ہے کہ بین الاقوامی برادری ان مسائل کے فوری حل کی طرف توجہ دے اور یہی عالمی عوامل ہیں جو ان دونوں ملکوں کی سیاسی اشرافیہ کی سوچ کے فرق کو ظاہر کرتے ہیں۔ امریکہ کا پہلے سے بے قابو فوجی بجٹ مزید بڑھنا عکاسی کرتا ہے کہ اس کے قومی سلامتی کے ادارے چین کے ساتھ طاقت کے غیرمعمولی مقابلے کو ہی اصل مقابلہ سمجھتے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے متعدد لیڈر پُرامید ہیں کہ چین کے خلاف اقدامات کی بنیاد پر ملٹری بجٹ میں اضافہ کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں تو چین جس طرح ہانگ کانگ کی سرزمین پر جمہوریت کے حامیوں اور مظاہرین کو الگ الگ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس سے بھی وہ مغربی دنیا کے مدمقابل آ کھڑا ہوا ہے۔ اس بیانیے کا اظہار کمیونسٹ پارٹی کے حامی اخبار پیپلز ڈیلی کی اس تحریر سے بھی ہوتا ہے جس میں وہ لکھتا ہے” چین مخالف امریکی قوتیں اور ہانگ کانگ کے اندر موجود قوتیں مل کر موجودہ احتجاج اور مظاہروں کی سازش کر رہے ہیں”
ہانگ کانگ کی سرزمین پر بدامنی کا جو خوف آج موجود ہے، وہ چینی قائدین کے لئے اس سے پہلے کبھی پریشانی کا باعث نہیں بنا۔ اس لیے حکومت ملک کے اندر اس طرح کی تمام جمہوریت پسند سرگرمیوں اور مظاہروں کے براہ راست الزامات غیرملکی مداخلت پر لگاتی رہی ہے۔ ہانگ کانگ کے مظاہرین اور اُن کے امریکی حامی جن مطالبات کو لے کر احتجاج کر رہے ہیں، چینی شہری اُن پر بہت سے سوالات اٹھا رہے ہیں ۔ اُن کے نزدیک معاشرتی عدم مساوات، مستقل ملازمتوں کا فقدان، رہائشی سہولتوں کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں، کرپشن اور روز بروز بڑھتی ہوئی اشرافیہ تو اُن کے بھی دُکھ اور مسائل ہیں، اس لئے ہانگ کانگ کے اندر مظاہرین آج اگر ان مسائل کی نشاندہی نہیں کریں گے تو کل وہ جمہوریت کے ثمرات سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے ۔
ممکن ہے کہ ہانگ کانگ کے نمائندے بیجنگ کو اپنے مطالبات منوانے پر مجبور نہ کر سکیں اور امریکہ سے آنے والا شدید دباوبھی چینی حکومت کو ہانگ کانگ کے حوالے سے رویہ بدلنے پر مجبورنہیں کر سکے، لیکن اس تمام معاملے میں چین اور ہانگ کانگ کے باشندوں کے درمیان جو یکجہتی نظر آتی ہے اُس سے تو طاقت کا توازن مکمل طور پر تبدیل ہونے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اگرچہ ہم ہانگ کانگ کے مظاہرین کے مقاصد کی حمایت کرتے ہیں، لیکن امریکی کانگریس نے جو بل منظور کیا ہے وہ نہ وہاں کی ترقی اور پیش رفت کے لئے خطرہ بن جائے گا بلکہ مظاہرین ، چین اور خود ہانگ کانگ کے باشندوں کے درمیان خلیج کو بھی مزید وسیع کر دے گا ۔
امریکہ نے بعض ایسے اقدامات بھی کئے ہیں جن کا بظاہر مقصد تو یہ نظر آتا ہے کہ ہانگ کانگ کو امریکی خارجہ پالیسی کا حصہ بنا دیا جائے۔ فی الواقع یہ کوئی حسن اتفاق تو ہے نہیں کہ امریکی کانگریس میں پیش کردہ بل کے سب سے اہم ترین حامی سینیٹر مارو ربویو چین کی معاشی ترقی کے کھلم کھلا خلاف ہیں۔ اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ بے شمار معاملات میں مسٹر بویو اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔ دونوں ہی پُرامیدرہتے ہیں کہ نظام کے اندر اصلاحات کے مطالبات کو غیر ملکیوں کے خلاف دشمنی ابھارنے کے لئے سازش کا نام دے دیا جائے، عدم مساوات کوتحفظ اور جارحانہ خارجہ پالیسی کی حمایت حاصل کی جائے۔
ترقی پسند قوتوں کو اس وقت جس چیلنج کا سامنا ہے، وہ یہ ہے کہ ایسا متبادل بیانیہ تیار کیا جائے جو دہرے معیار کا تاثر زائل کرے اور سیاسی تصادم کی فضاء کی بنیاد کا ازسرنو تعین کرے۔ آج وسیع مساوات اور مستحکم بنیادوں پر معاشرے کی تعمیر کے لئے چینی باشندوں، ہانگ کانگ اور امریکہ کے عوام کے درمیان اتحاد و یکجہتی پیدا کرنے کی بے شمار بنیادیں موجود ہیں۔ ہمارے دشمن دوسرے ملک نہیں بلکہ تمام ملکوں کی لامحدود اشرافیہ اور قوم پرست نظریات ہیں۔