افغان طالبان 20 سال تک اسلام دشمن کے طور پر پیش کرنیوالے بھارت کیساتھ تعلقات کیلئے سرگرم

afghanistan

بھارت کو دو دہائیوں تک اسلام دشمن ریاست کے طور پر پیش کرنے والے افغان طالبان بھارت کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کیلئے کافی سرگرم ہو چکا ہے۔

طالبان کی پروپیگنڈا مشینری نے بھارت کو 20 سال سے زیادہ عرصے تک ہندو ریاست کے طور پر پیش کیا ، اب یہی امارتِ اسلامیہ اپنے وزیرِ خارجہ اور وزیرِ تجارت کو سرمایہ کاری کیلئے نئی دہلی بھیج رہی ہے۔

طالبان نے بامیان کے بدھ مجسمے “غیر اسلامی بتوں” اور “بدھ مت ، ہندو تہذیب” پر حملے کے نام پر تباہ کیے تھے۔ آج وہ بھارت کی خوشامد کر رہے ہیں، جو خود کو اسی بدھ و ہندو ورثے کا محافظ اور علمبردار سمجھتا ہے، جس پر طالبان نے حملہ کیا تھا۔

پاکستان سے کشیدہ تعلقات، افغانستان کے وزیر تجارت بھارت پہنچ گئے

پہلے ان کا دعویٰ تھا کہ کابل کی سابقہ حکومت “بھارت کی کٹھ پتلی” ہے اور بھارتی قونصل خانے افغانستان و پاکستان کے خلاف را کے دہشتگرد مراکز ہیں۔ اب یہی امارت اسی سابق دشمن سے اپنی معیشت سنبھالنے کی درخواست کر رہی ہے اور بھارتی گندم، بھارتی فنڈز، بھارتی بندرگاہوں تک رسائی اور تجارتی راستوں کی تلاش میں ہے۔

طالبان مسلسل مسلم بھائی چارے، اسلامی یکجہتی اور پاکستان سے “تاریخی تعلقات” کی بات کرتے ہیں لیکن جیسے ہی پاکستان سے ٹی ٹی پی اور فتنہ الخوارج ، سرحد اور مہاجرین کے معاملات پر تناؤ بڑھا، وہ فوراً اپنے قریب ترین مسلمان ہمسائے سے پہلے تعلقات سنوارنے کے بجائے ایک غیر مسلم طاقت کی طرف لپک پڑے۔

طالبان برسوں تک مغربی معاشی غلامی، سودی نظام پر تنقید کرتے رہے ، اب وہ بھارت سے رابطے میں ہیں جو مغربی سرمایہ اور عالمی مالیاتی اداروں سے گہرا جڑا ہوا ہے۔

پاکستان کا بھارت افغانستان مشترکہ بیان پرشدید ردعمل، افغان سفیر دفتر خارجہ طلب

اندرون ملک طالبان کا مؤقف سخت ہے ،لڑکیوں کی تعلیم، خواتین کی نوکری اور میڈیا کی آزادی پر “خالص شریعت” کے نام پر کوئی رعایت نہیں لیکن خارجہ پالیسی میں وہ پوری نرمی دکھاتے ہیں؛ جو بھی فنڈ، کوریڈور یا سیاسی سہارا دے، اسی سے دوستی ، خواہ وہی ریاست پہلےغیر اسلامی کہلاتی رہی ہو۔

طالبان سے جڑے علماء اور جنگجو ماضی میں “کشمیر میں جہاد” اور وہاں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر کرتے رہے ہیں لیکن دہلی کے اہم دوروں میں کشمیر ، سی اے اے یا بھارتی مسلم مخالف واقعات پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے کیونکہ ان کی ترجیح تجارت اور عالمی شناخت ہے، نہ کہ “مظلوم مسلمان۔

طالبان پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد، ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہیں مگر بھارت کے ساتھ خصوصاً ایسے حساس معاملات پر جہاں افغان سرزمین پاکستان مخالف عناصر کے لیے استعمال ہوتی ہے ،وہ سخت مؤقف نہیں اپناتے۔

پاکستانی چینلز پر بھارتی مواد نشر ہوگا یا نہیں، کیس میں اہم پیشرفت

امارت اکثر کہتی ہے کہ وہ “شناخت کے لیے بھیک نہیں مانگتی لیکن نئی دہلی کے بار بار وزارتی دورے جو تاحال طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرتا ، صاف ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں ڈی فیکٹو شناخت، تصاویر اور سفارتی قبولیت کی تلاش ہے۔

طالبان نے پاکستان اور مغرب کے ساتھ معاملات میں ہمیشہ ایمان اور مزاحمت کی زبان استعمال کی، مگر بھارت کے ساتھ آتے ہی وہ جہادی بیانیہ ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور ایک کمزور ریاست کی طرح پیش آتے ہیں جو ماضی کے “بتوں” اور “اسلام دشمنوں” کو بھول کر، تجارتی کوریڈور، گندم اور سفارتی تعلقات کے بدلے ہر لچک دکھانے کو تیار ہے۔

 


متعلقہ خبریں
WhatsApp