(افتخار احمد خانزاده) انسان نے ہمیشہ خوراک،توانائی، معدنیات ،معیشت ، سفری سہولیات اور دفاعی مفادات کے حصول کے لیے سمندروں سے رجوع کیا ہے۔ توانائی اور معاشی مفادات کے یہ ذرائع ازل سے کھلے سمندروں اور ساحلوں پر بکھرے پڑے ہیں اور انسان اپنی ضرورت کے مطابق ان سے استفاده کرتا رہا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں ان وسائل پر جدید تحقیق کے نتیجے میں بلیو اکانومی کے نظریے نے جنم لیا۔
بلیو اکانومی دراصل کھلے سمندروں اور ساحلوں پر دستیاب قدرتی وسائل کو محفوظ بناتے ہوئے ، توانائی، خوراک اور پائیدار اقتصادی ترقی کے متبادل ذرائع سے جڑی دوسری صنعتوں کی ترقی کے نتیجے میں وجود میں آنے والا ایک مستحکم معاشی نظام ہے۔ بلیو اکانومی سے استفاده کرنے والے ممالک کے ہاں پائیدار اقتصادی ترقی کے حوالے سے بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے میچ میں51 فیصد بارش کا امکان
سنگاپور کی ترقی کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے، لیکن اس کی سب سے نمایاں ترقی اُس وقت عمل میں آئی جب حکومت نے بندرگاه کی ترقی کو اپنی معاشی حکمت عملی کا اہم جزو قراردیا۔ 1965 کے بعد جدید بندرگاه اور کنٹینر ٹرمینل کی تعمیر کا آغاز ہوا ۔ 90 کی دہائی کے بعد بندرگاه نےعالمی تجارتی مرکز کی حیثیت اختیار کر کےسنگاپور کی ترقی کے راستے کھول دیے۔
نہر سویز یورپ اور ایشیا کے درمیان مختصر ترین بحری تجارتی راستہ ہے، 1869 میں اس کی تعمیر نے تقریباً 7,000 کلومیٹر کا فاصلہ 193 کلو میٹر میں سمیٹ دیا۔ جس نے ایندھن اور وقت کی بچت کے علاوه تجارتی لاگتوں میں بھی انقلاب برپا کردیا۔
بندرگاہوں اور لاجسٹکس کے مراکز کی تعمیر، جہازوں کی مرمت،ایندھن کی فراہمی اور بڑے پیمانے پر کارگو ہینڈلنگ کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدن مصر کی مضبوط معیشت اور عالمی مفادات کا بڑا ذریعہ بن گئی ۔
بلیو اکانومی کی ایک بہت بڑی مثال نہر پاناما ہے جس کی تعمیر نے نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر ترقی وخوشحالی کے دروازے کھول دئیے۔ وسطی امریکہ کے ملک پاناما میں واقع اس بحری نہرنے بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان حائل تقریباً 13000 سمندری میل کےطویل فاصلے کو سمیٹ کر 6000 سمندری میل تک محدود کر دیا۔
صنعتی زون اور اقتصادی مراکز کی ترقی نے عالمی سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا ، تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ اور مقامی افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئے۔ بلیو اکانومی سے استفادے کے ضمن میں چین دنیا کی سب سے بڑی سمندری خوراک کی پیداوار اور برآمدات کرنے والا ملک ہے۔اس کی بلیو اکانومی میں مچھلی کی پیداوار، سمندری خوراک کی پراسیسنگ، سمندری زراعت اور بحری توانائی کا حصول شامل ہے۔
جاپان بھی سمندری خوراک کی فارمنگ موجوں سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں اور بلیو اکانومی کے دوسرے ذرائع سے استفادے میں پیش پیش ہےاس کی بندرگاہیں اور شپنگ انڈسٹری دنیا کی مصروف ترین بحری صنعتیں ہیں۔
بغیر اجازت نامے کے حج کرنا جائزنہیں؟ مفتی اعظم سعودی عرب
امریکہ بلیو اکانومی کے تصور کو تقویت دیتے ہوئے بحری توانائی کی صنعتوں، معدنیات کی تلاش ،زراعت اور مختلف سمندری منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ فشریز اور آبی زراعت کے حوالے سے ناروے عالمی رہنما کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس نے سمندری خوراک کی پیداوار اور ماحولیاتی تحفظ کو ترجیح دیتے ہوئے ملکی معیشت کوتقویت دی ہے ۔
بحیرهِ کیریبین کے ساحلی علاقے،جزائر اور خوبصورت مناظر دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ سیاحت کے فروغ سے ان ممالک کی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملی ہے ۔ویسے تو پوری دنیا میں بحری سیاحت سے استفاده کیا جا رہا ہے مگر ملائیشیا میں اس صنعت کو عروج حاصل ہے،دنیا بھر کے سیاحوں کی دلچسپی معاشی استحکام کا سبب بن رہی ہے۔
آسٹریلیا کی گریٹ بیریئر ریف دنیا کی سب سے بڑی مرجان کی چٹان نہ صرف سیاحت کے لئے مشہور ہے بلکہ ماہی گیری اور حیاتیاتی تنوع کے لئے بھی اہم ہے۔آسٹریلیا نے بلیو اکانومی کے اس خزانے کے تحفظ اور معاشی مفادات کے حصول کے لیے مختلف اقدامات اُٹھائے ہیں،جن کی بدولت معیشت اور ماحولیات کی پائیداری میں مدد ملی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بلیو اکانومی کے تصور پر بہت دیر سے توجہ دی گئی ہے ۔پاکستان کا ایک ہزار کلو میٹر لمبا ساحل بلیو اکانومی کے روشن امکانات سے بھرا پڑا ہے۔
سی پیک اس کی سب سے بڑی مثال ہے جس کے ذریعے چین سے گوادر تک ہزاروں سمندری میل کا فاصلہ ایک شاہراه پر سمٹ آیا ہے۔سی پیک سے مشرق بعید اور مشرق وسطیٰ کے درمیان مصنوعات ارزاں تجارتی اخراجات پر دستیاب ہو سکیں گی جس کے اثرات نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر بھی محسوس کیے جا سکیں گے۔
سی پیک کے ذیلی ترقیاتی منصوبوں کے تحت ملک بھر سے سڑکوں کا جال بندرگاه تک بچھایا جائے گا جس کے نتیجے میں صنعتی مراکز کی تعمیر و ترقی اور افرادی قوت کو بڑے پیمانے پر روزگار کی فراہمی سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
پاکستان میں بلیو اکانومی کی اہمیت اور اس سے استفادے کی صلاحیت کے بارے میں کئی پہلو زیرِ غور ہیں۔سمندر سے تیل و گیس، معدنیات اور توانائی کے متبادل ذرائع کے حصول سے ملکی ترقی اور معیشت کی بحالی میں مدد ملے گی۔
پاک بھارت کے درمیان 12 ٹی ٹوئنٹی میچز میں انڈیا کا پلڑا بھاری
اعلیٰ قسم کی مچھلیوں اور جھینگوں کے ذخائر سے مالا مال پاکستان کا ساحلی علاقے اور سمندری زراعت و حیاتیات کا شعبہ توجہ کا طالب ہے۔ سمندری ہوا اور موجوں سے بجلی بنانے کے قابل تجدید ماحول دوست ذرائع ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ کراچی، گوادر، مکران کوسٹ، بنڈل آئی لینڈ، چرنا، استولا اور منوڑه کے جزائر کو سمندری سیاحت کے لیے پُرکشش بنا کر معاشی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔
بین الاقوامی تعاون کے ذریعے بلیو اکانومی کے شعبے میں ترقی کے روشن امکانات موجود ہیں۔ پاک بحریہ پاکستان میں بلیو اکانومی کے فروغ کے لیے مختلف سیمینار، کانفرنسز اور میری ٹائم نمائشوں کے ذریعے تشہیری و آگاہی مہم کو فروغ دے رہی ہے جن کے ذریعے مقامی اور عالمی سرمایہ داروں کی توجہ پاکستان کی بلیو اکانومی کی جانب مبذول کرانے کے سلسلے میں خاطر خواه پیش رفت سامنے آئی ہے۔
اس سلسلے میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز اور نیشنل سینٹر فار میری ٹائم پالیسی اینڈ ریسرچ جیسےادارےاپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ پاکستان کی بلیو اکانومی میں دلچسپی اس بات کا ثبوت ہے کہ وه سمندری وسائل کا مؤثر انداز میں استعمال کرتے ہوئے ملکی معیشت کو مضبوط بنانے اور عالمی سطح پر بلیو اکانومی کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔