تنخواہیں 35، پنشن میں 17.5 فیصد اضافہ،کم سے کم اجرت 32 ہزار، سولر سستے،بڑی گاڑیاں مہنگی


آئندہ مالی سال 2023-24 کے بجٹ میں تنخواہوں میں 35 جب کہ پنشن میں 17.5 فیصد کر دیا گیا جب کہ مزدور کی کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔

اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی اجلاس میں بجٹ سے متعلق تقریر کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ اتحادی حکومت کا دوسرا بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہو رہا ہے،معیشت کی بہتری کیلئے کچھ اہم فیصلے کرنا پڑیں گے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے تاریخی 1150 ارب روپے جبکہ ملکی دفاع کے لیے 1804 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قرضوں میں اضافے کی وجہ سے سود کی ادائیگی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا، گزشتہ دور میں گردشی قرضے میں سالانہ 129 ارب روپے اضافہ ہوا، موجودہ حکومت نے خسارے کو کم کرنے کیلئے کفایت شعاری کی پالیسی اپنائی ہے، حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر دیا ہے، ہماری کوشش ہے جلد سے جلد سٹاف لیول معاہدہ مکمل ہو جائے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنز میں اضافہ

وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ گریڈ ایک سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد، گریڈ 17 سے 22 تک ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا جائے گا، پنشن میں ساڑھے 17 فیصد اضافہ کیا جائے گا، اسلام آباد میں کم سے کم اجرت کو 25 ہزار سے بڑھا کر 32 ہزار روپے کیا جا رہا ہے، ای اوبی آئی کی پنشن کو ساڑھے 8 ہزار سے 10 ہزار کیا جا رہا ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت کو عوام کی مشکلات کا اندازہ ہے، تمام بیرونی ادائیگیاں بروقت کی جا رہی ہیں، موجودہ حکومت کے بروقت اقدامات سے تجارتی خسارے میں 77 فیصد کمی آ چکی ہے، بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے نظام میں بہتری کیلئے 107 ارب خرچ کیے جائیں گے، تجارتی خسارہ کم ہو کر 26 ارب ڈالر رہ جائے گا، ایچ ای سی کیلئے جاری اخراجات میں 65 ارب، ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70 ارب مختص کیے ہیں۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ میں 25 فیصد اضافہ

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت کے اقدامات سے زرمبادلہ کے ذخائر میں گراوٹ پر قابو پایا، پاکستان انڈومنٹ فنڈ کیلئے بجٹ میں 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ میں 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، ایک سال میں تجارتی خسارہ میں 22 ارب ڈالر کمی لائی گئی، سکول، کالج اور پروفیشنل کھیلوں میں ترقی کیلئے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے 5 ارب روپے مختص

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے 5 ارب روپے مختص کیے ہیں، یوٹیلٹی سٹورز پر کم قیمت اشیا کی فراہمی کیلئے 26 ارب روپے رکھے ہیں، پٹرول 20، ڈیزل 35 روپے کم کیا جس سے مہنگائی کم ہو گی، 12ارب ڈالر کے قرضہ جات کی ادائیگیاں کی جا چکی ہیں، صنعتی شعبے پر اگلے سال کیلئے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا، یہ الیکشن بجٹ نہیں ہے، یہ الیکشن بجٹ ہوتا تو اس کے خدوخال کچھ اور ہوتے، بجٹ میں ہمارا کوئی سیاسی ابجیکٹو نہیں ہے۔

زرعی شعبے کیلئے 2 ہزار ارب روپے کا کسان پیکیج

وزیر خزانہ نے کہا زرعی شعبے کیلئے 2 ہزار ارب روپے کا کسان پیکیج دیا، 50 ہزار زرعی ٹیوب ویل کو سولر پر منتقل کرنے کیلئے 30 ارب مختص کیے ہیں، سیلاب کے باوجود زراعت میں ڈیڑھ فیصد گروتھ ملی ہے، زرمبادلہ ذخائر 9.34 ارب ڈالر ہیں، وزیراعظم یوتھ پروگرام فار سمال لونز کیلئے 10 ارب روپے مختص کیے ہیں، ترقی کا ہدف 3.5 فیصد رکھا ہے، بزنس، ایگری کلچر سکیمز متعارف کرائی جا رہی ہیں، چھوٹے قرضوں کو جاری رکھا جائے گا، زرعی قرضوں کو بڑھا کر 2250 ارب روپے کیا جا رہا ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا زرعی مشینری کی درآمد پر تمام ٹیکس ختم کر دیئے گئے، معیاری بیجوں کی درآمد پر تمام ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی ہے، فارن کرنسی آؤٹ فلو کیلئے نان فائلر پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح کو 10 فیصد کر دیا گیا ہے، رواں مالی سال ایف بی آر کے محاصل 72 سو ارب روپے رہنے کا امکان ہے جن میں صوبوں کا حصہ 4 ہزار129 ارب روپے ہو گا، وزیر اعظم سکلز پروگرام کے تحت نوجوانوں کی تربیت کیلئے 5 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کاروباری خواتین کیلئے ٹیکس کی شرح میں بھی چھوٹ دی گئی ہے، حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صنعتی شعبے پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا، ملک کے معاشی حالات اب بہتری کی جانب گامزن ہیں، حکومت نے ملکی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ بجٹ دیا، بجٹ تجاویز میں ہمارا فوکس ترقی کے محرکات پر ہے، وفاقی حکومت کا نان ٹیکس ریونیو 1618 ارب روپے ہونے کی توقع ہے، یہ ٹیکس برانڈڈ ٹیکسٹائل اینڈ لیدر کے قیمتی ملبوسات پر لیا جائے گا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ کل اخراجات کا تخمینہ 11 ہزار 90 ارب روپے ہے، وفاق کے محاصل 4 ہزار 689 ارب روپے ہوں گے، ایگرو انڈسٹری کو رعایتی قرضوں کی فراہمی کیلئے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، کھاد پر سبسڈی کیلئے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، ٹیکسٹائل، لیدر، مصنوعات کے ٹیئرون ریٹیلرز پر جی ایس ٹی کی شرح 12سے 15 فیصد کر دی ہے، فارن کرنسی آؤٹ فلو کیلئے فائلر پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح ایک سے بڑھا کر 5 فیصد کی جا رہی ہے۔

سول حکومت کے مجموعی اخراجات 553 ارب مختص

اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سول حکومت کے مجموعی اخراجات 553 ارب، پنشن پر 654 ارب خرچ ہوں گے، دفاع پر کم و بیش 1510 ارب روپے خرچ ہوں گے، افراط زر کی شرح 21 فیصد تک ہو گی، پاکستان میں کم و بیش 3 ہزار غیر ملکی گھریلو خادم کام کر رہے ہیں۔

آئی ٹی ایکسپوٹرز کو 50 ہزار ڈالر کا ہارڈ ویئر ڈیوٹی فری منگوانے کی اجازت

انہوں نے کہا ہے کہ آئی ٹی ایکسپوٹرز کو 50 ہزار ڈالر کا ہارڈ ویئر ڈیوٹی فری منگوانے کی اجازت ہو گی، آئی ٹی برآمدات پر انکم ٹیکس کی رعایتی شرح 0.25 فیصد 3 سال برقرار رہے گی، آئی ٹی برآمدات بڑھانے کیلئے انکم ٹیکس کی کم شرح کو 2026 تک برقرار رکھا جا رہا ہے، 50 ہزار ڈالر تک آئی ٹی درآمدات کو ٹیکس چھوٹ دی جا رہی ہے، آئی ٹی شعبہ کو چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعت کا درجہ دیا جا رہا ہے، آئی ٹی کے نئے کاروبار کیلئے 5 ارب روپے کا فنڈ قائم کیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ٹی میں فی لانسرز شعبے میں پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، لیپ ٹاپ سکیم کیلئے 10ارب روپے مختص ہے، اگلے مالی سال برآمدات کا ہدف 30 ارب ڈالر، ترسیلات زر کا ہدف 33 ارب ڈالر ہے، صوبوں کا حصہ 5 ہزار 276 روپے ہو گا، وفاقی نان ٹیکس محصولات 2 ہزار 963 ارب روپے ہوں گے، وفاقی حکومت کی کل آمدن 6 ہزار 887 ارب روپے ہو گی، وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 14ہزار460 ارب روپے ہے، پی ایس ڈی پی کی مد میں اخراجات 567 ارب تک رہنے کا امکان ہے۔

پی ایس ڈی پی کیلئے 950 ارب روپے کا بجٹ مختص

اسحاق ڈار نے کہا کہ سود کی ادائیگی پر 7 ہزار 303 ارب روپے خرچ ہوں گے، پی ایس ڈی پی کیلئے 950 ارب روپے کا بجٹ مختص کر دیا، ترسیلات زر ہماری ایکسپورٹ کے 90 فیصد کے برابر ہے، ملکی دفاع کیلئے ایک ہزار804 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، معدنیات برآمد کیلئے مقامی خریداری پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ دی جا رہی ہے، تمام لسٹڈ کمپنیز پر 1 اعشاریہ 2 فیصد ٹیکس کو کم کر کے ایک فیصد کر دیا گیا ہے، ورکنگ جرنلسٹس کیلئے پہلی بار ہیلتھ انشورنس کا اعلان کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ دالوں اور چینی پر ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائےگی، ٹیکسٹائل انڈسٹری کے فروغ کیلئے مقامی طور پر تیار نہ ہونے والے دھاگے پر 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی، اوورسیز پاکستانیوں کیلئے ترسیلات زر کے ذریعے غیرمنقولہ جائیداد خریدنے پر 2 فیصد ٹیکس ختم کر دیا، سیکنڈ ہینڈ کپڑوں پر ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے، بجلی ، گیس اور دیگر شعبوں کیلئے ایک ہزار 74 ارب روپے مختص کیے ہیں، لیپ ٹاپ سکیم کے تحت طلبہ کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ تقسیم کریں گے۔

وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ترقیاتی فنڈز کیلئے 1150 ارب روپے رکھے گئے ہیں، تعمیرات، زراعت اور ایس ایم ایز کو قرض دینے والے بینکوں پر ٹیکس شرح 39 سے 20 فیصد کیا جا رہا ہے، بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت 92 ہزار طلبا کو وضائف دیئے جائیں گے، 50 ہزار آئی ٹی گریجوایٹس کو تربیت دی جائے گی، مستحق افراد کیلئے یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کو 35 ارب روپے کی سبسڈی دی جا رہی ہے، مستحق افراد کے علاج اور امداد کیلئے پاکستان بیت المال کو 4 ارب روپے دیئے جا رہے ہیں۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور جدید ترین انفرااسٹرکچر کیلئے پی ایس ڈی پی کا 52 فیصد مختص کیا ہے، تعلیم بشمول اعلیٰ تعلیم کیلئے 82 ارب روپے رکھے گئے ہیں، صحت کے شعبے کیلئے 26 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، مجموعی ترقیاتی پروگرام کیلئے 2709 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جام شورو پاور پلانٹ کی تکمیل کیلئے 12 ارب روپے مہیا کیے جائیں گے، نوجوانوں کیلئے نئے کاروبار شروع کرنے پر ٹیکس میں 50 فیصد چھوٹ دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ تعمیراتی شعبے سے آمدن پر 10 فیصد یا 50 لاکھ روپے کی رعایت دی جا رہی ہے، پاکستان اور تاجکستان کے درمیان 500 کے وی ٹرانسمیشن لائن کیلئے 16ارب مختص کیے ہیں، این ٹی ڈی سی کے موجودہ گرڈ اسٹیشنز کی استعداد میں بہتری کیلئے 5 ارب مختص کیے ہیں، وفاقی حکومت کی آمدنی صوبوں کا حصہ دینے کے بعد 6 ہزار887 ارب روپے ہو گی، خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے 57 ارب روپے رکھے گئے ہیں، آزاد کشمیر کیلئے 32.5 ارب روپے رکھے ہیں۔

گلگت بلتستان کی ترقی کیلئے 26 ارب 50 کروڑ روپے مختص

وزیر خزانہ نے کہا کہ گلگت بلتستان کی ترقی کیلئے 26 ارب 50 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں، سماجی شعبے کی ترقی کیلئے 244 ارب روپے رکھے ہیں، داسو ہائیڈر و پلانٹ سے بجلی کی ترسیل کیلئے 6 ارب روپے فراہمی کی تجویز ہے، مہمند ڈیم کی تکمیل کیلئے اگلے سال 10ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے ہیں، بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی بہتری کیلئے 107 ارب روپے مہیا کیے گئے ہیں، ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 41ہزار میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پیداواری شعبوں کیلئے 50 ارب روپے مختص کیے ہیں، کم آمدن افراد کیلئے مائیکرو ڈیپازٹ کی نئی سکیم لا رہے ہیں، سپر ٹیکس کے نفاذ کیلئے کم سے کم آمدن کی حد 150 ملین مقرر کی گئی تھی، سپر ٹیکس کو پروگریسو ٹیکس میں تبدیل کرنے کیلئے ٹیکس ریٹ بتدریج بڑھانے کی تجویز ہے، شہدا کی فیملیز کیلئے منافع کی حد 50 لاکھ کو 75 لاکھ روپے کیا جا رہا ہے، بہبود سرٹیفیکیٹ سکیم میں ڈیپازٹ کی حد کو 75 لاکھ کر رہے ہیں۔

سولر پینلز پر کسٹم ڈیوٹی میں استثنیٰ

وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ ان درآمدات کی قیمت میں اضافہ افراط زر کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس قیمت میں کمی کرنے کے لیے ہماری حکومت پاکستانی کوئلے کے استعمال اور شمستی توانائی کو فروغ دینے کے لیے پختہ ارادہ رکھتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں کوئلے سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں کو ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ مقامی کوئلہ استعمال کریں۔ سولر پینلز ، انورٹرز اور بیٹری کے خام مال پر استثنیٰ دیا جا رہا ہے۔

1300 سی سی سے زائد کی گاڑیوں کی درآمد پر ٹیکسز کی حد بندی ختم

وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2023-24 کے بجٹ میں ایشیا میں بننے والی پرانی اور استعمال شدہ 1300 سی سی سے بڑی گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکسز کی حد بندی ختم کردی۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھاکہ ایشیا میں بننے والی پرانی اور استعمال شدہ 1800 سی سی تک کی گاڑیوں کی درآمد پر 2005 میں ڈیوٹیز اور ٹیکسز کو محدود کر دیا گیا تھا۔ اب 1300 سی سی سے اوپر کی گاڑیوں کے ڈیوٹی اور ٹیکسز کی حد بندی ختم کی جا رہی ہے۔

ڈیوٹی اور ٹیکسز کی حد بندی ختم ہونے کے بعد گاڑیاں مہنگی ہونے کا امکان ہے۔

ٹیلی کام سروسز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کم
وزیر خزانہ نے بتایا کہ ٹیلی کام سروسز پر 19.05 فیصد کی شرح سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد ہے جس کو کم کر کے 16 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

بجٹ میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں 3.5 فیصد کمی کی تجویز ہے۔

بجٹ میں اعلیٰ تعلیم اور لیپ ٹاپ اسکیم کیلئے خطیر رقم مختص

وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم صوبائی ذمہ داری ہے لیکن وفاق اس کی ترویج میں اپنا بھر پور حصہ ڈالتا ہے، اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا رہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے لیے موجودہ اخراجات کی مد میں 65 ارب اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت کے لیے پاکستان انڈومنٹ فنڈ (Pakistan Endowment Fund) کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس کے لیے بجٹ میں 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ یہ فنڈز میرٹ کی بنیاد پر ہائی اسکول اور کالج کے طلبہ و طالبات کو وظائف فراہم کرے گا، اس فنڈ کے قیام کا مقصد ہے کہ کوئی بھی ہونہار طالبعلم وسائل میں کمی کی وجہ سے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ ہو۔

لیپ ٹاپ اسکیم کو جاری رکھنے کے لیے آئندہ مالی سال میں 10 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی۔

کھیل تعلیم کا ایک لازمی حصہ ہیں بجٹ میں اسکول، کالج اور پروفیشنل کھیلوں میں ترقی کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔


متعلقہ خبریں