ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں،جسٹس قاضی فائز عیسٰی


مبینہ آڈیو لیکس کی انکوائری کیلئے جوڈیشل کمیشن کے دوسرے اجلاس میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے سپریم کورٹ کا حکم پڑھ کر سنایا جس میں کمیشن کو کام سے روکنے کا کہا گیاہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہاکہکمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں تھا تو کام سے کیسے روک دیا؟سپریم کورٹ رولز کے مطابق فریقین کو سن کر کوئی حکم جاری کیا جاتا ہے۔

سربراہ کمیشن جسٹس قاضی فائز نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ گزشتہ روز کمرہ عدالت میں تھے، نوٹس تھا یا ویسے بیٹھے تھے؟

جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مجھے زبانی بتایا گیا تھا کہ آپ عدالت میں پیش ہوں، سماعت کے بعد مجھے نوٹس جاری کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہاکہ تھوڑا بہت آئین میں بھی جاننا چاہتا ہوں،آپ نے عدالت کو کیوں نہیں بتایا کہ ان کے اعتراضات والے نکات کی ہم پہلے ہی وضاحت کر چکے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ عابد زبیری اور شعیب شاہین نے آج آنے کی زحمت بھی نہیں کی،کیاعابد زبیری اور شعیب شاہین کو آکر بتانا نہیں تھا کہ گزشتہ روز کیا آرڈر ہوا۔

کیا شعیب شاہین نے یہ کہا کسی کی بھی آڈیو آئے اس جج کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دو،درجنوں ایسی شکایات آتی ہیں کیا ٹھیک کر کے سپریم جوڈیشل کمیشن بھیج دیا کریں؟آڈیو کی صداقت جانے بغیر کیا کسی کی زندگی تباہ کر دیں؟کس نے آڈیو ریکارڈ کی وہ بعد کی بات ہے۔

آڈیو لیکس تحقیقات، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی کارروائی سے قبل اشتہار جاری کرنے کی ہدایت

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سرپرائز ہوا گزشتہ روز ان نکات کو رد نہیں کیا۔

سربراہ کمیشن نے کہاکہ شعیب شاہین نے میڈیا پر تقریر کر دیں لیکن یہاں آنے کی زحمت نہ کی،پرائیویسی ہمیشہ گھر کی ہوتی ہے،کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جاسکتا،سڑکوں پر جو کیمرے لگے ہیں کیا یہ بھی پرائیویسی کے خلاف ہیں؟ کم از کم ہمیں عدالتی کارروائی کے لیے نوٹس ہی جاری کر دیتے،گزشتہ روز کے حکمنامے میں میرے کیس کا ذکر بھی ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے کیس میں معاملہ الگ تھا،میرے کیس میں ایک شخص نے سامنے آکر کہا میں نے آپ کے بارے میں یہ معلوم کیا، اس نے معلوم نہیں کیا کسی اور نے اسے کھڑا کیا،دوسروں کی عزت ہے تو تھوڑی ہماری بھی ہونی چاہیے، گواہ سے ابھی مزید نہیں پوچھ رہے،ویسے یہ گواہ ہیں انکو کمیشن پر اعتراض ہوسکتا ہے لیکن یہ آئے تو ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ گزشتہ روز ہمیں خواجہ طارق رحیم نے ای میل کی ہے،طارق رحیم نے لکھا کہ لاہور میں اگر کمیشن سماعت مقرر کرتا ہے تو وہ پیش ہونگے،یہ الگ بات ہے کہ ان کی درخواست پر غور ہوتا ہے یا نہیں لیکن جواب تو دیا، شاہراہوں پر جو کیمرے لگے ہوتے ہیں کیا وہ صحیح ہیں؟ کیمروں کا مقصد صرف ایکسیڈنٹ کو دیکھنا ہے کہ وہ کیسے ہوا۔

ان کا کہنا تھاکہ کیمروں سے اگر کوئی اہلکار گزرنے والے لڑکا لڑکی کے لیے استعمال کرے، اگر کوئی اہلکار موقف رکھے کہ نکاح نامہ نہیں تو کیا یہ درست ہے؟ سپریم کورٹ میں جو درخواست گزار ہیں وہ یہاں موجود نہیں،وکیل کا کام عدالت کے اندر ہوتا ہے، میڈیا شوز میں نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر وکیل میڈیا پر آتا ہے تو اس کو اپنے کیس پر بات نہیں کرنی چاہیے،اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل کو جج کا حلف پڑھنے کی ہدایت کی، انہوں نے کہا کہ حلف میں لکھا ہے فرائض آئین و قانون کے تحت ادا کروں گا،سربراہ کمیشن نے کہا کہ یہ انکوائری کمیشن ایک قانون کے تحت بنا ہے،کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت یہ کمیشن بنایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں، شعیب شاہین روزانہ ٹی وی پر وکلا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہیں،ہمیں قانون سکھانے آگئے ہیں،کوئی بات نہیں سکھائیں ہم تو روزانہ سیکھتے ہیں۔

مبینہ آڈیو لیکس کی انکوائری کیلئے جوڈیشل کمیشن نے کارروائی روک دی، سربراہ کمیشن جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہاکہ ہم آج کی کارروائی کا حکمنامہ جاری کریں گے،ہم کمیشن کی مزید کارروائی نہیں کر رہے۔


متعلقہ خبریں