ایک بار پھر سپریم کورٹ کے باہر ڈیرہ، 1997ء میں کیا ہوا تھا؟


پی ڈی ایم نے عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ کے سامنے دھرنے کا اعلان کیا ہے اورجے یو آئی (ف) کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد ریڈ زون میں پہنچ گئی۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے عدلیہ کے رویے کے خلاف احتجاج اور دھرنے کا اعلان کیا تھا، آج ملک بھر سے جے یو آئی (ف) اور دیگر جماعتوں کے کارکن بڑی تعداد میں ریڈ زون پہنچ گئے۔

سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا لیکن 14 مئی گزر گئی انتخابات نہ ہو سکے، اسی حوالے سے آج سپریم کورٹ میں سماعت بھی ہو رہی ہے۔

پی ڈی ایم کی جانب سے احتجاج اور دھرنے کا اعلان عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کا حربہ قرار دیا جا رہا ہے۔

اس دھرنے کو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے نومبر 1997ء میں سپریم کورٹ پر دھاوا بولنے کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

میاں نوازشریف کی عدلیہ سے محاذ آرائی کا پہلا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب 1997 میں وہ دوسری بار وزیراعظم بنے، اس وقت چیف جسٹس سجاد علی شاہ تھے۔

نواز شریف سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کو پارلیمنٹ کا اختیار قرار دینا چاہتے تھے جب کہ چیف جسٹس اس پر ایک برس پہلے فیصلہ دے چکے تھے کہ یہ عدلیہ کا اختیار ہے۔ اس کے علاوہ بھاری مینڈیٹ سے وزیراعظم بننے والے نواز شریف نے فلور کراسنگ کے خلاف آئین میں ترمیم منظور کی تھی جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔

پی ڈی ایم احتجاج، کارکن سکیورٹی گیٹ پھلانگ کر سپریم کورٹ کے سامنے پہنچ گئے

عدالت نے اس ترمیم پر عمل درآمد فیصلے تک روک دیا تھا اس پر نواز شریف نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ہارس ٹریڈنگ کی لعنت بحال کردی ہے، نواز شریف چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔

اِس وقت بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر مسلسل تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔

نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اور انھیں عدالت میں طلب کیا گیا، 17 نومبر 1997 کو نواز شریف سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو وہاں کارکنوں نے ان کا استقبال کیا اور ہنگامہ آرائی کی۔

26 نومبر کو سپریم کورٹ کے کوئٹہ بنچ نے چیف جسٹس سجاد حسن شاہ کی تقرری کا نوٹیفکیشن معطل کیا، اسی دن چیف جسٹس نے کوئٹہ بنچ کا فیصلہ غیر آئینی قرار دیا،27 نومبر 1997ء کو مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے سپریم کورٹ کے ججوں سے بد تمیزی کی۔

28 نومبر کو جب چیف جسٹس سجاد علی شاہ نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ سنانے والے تھے، مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی بڑی تعداد سینیٹر سیف الرحمان کی قیادت میں سپریم کورٹ میں گھس گئی۔ ن لیگ کے کارکن چیف جسٹس اور ان کے ہمنوا ججوں کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس سجاد علی شاہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ نہ سناسکے، کہا جاتا ہے کہ جج اپنی جان بچانے کے لیے اپنے چیمبروں میں محصور ہوگئے تھے، چیف جسٹس نے فوج سے بھی مدد طلب کی تھی۔

پی ڈی ایم کی جانب سے دیے جانے والے دھرنے کی قیادت سربراہ جے یو آئی ف مولانا فضل الرحمان کر رہے ہیں۔

حکومتی وزراء نے مولانا فضل الرحمان سے جگہ کی تبدیلی کے بارے میں ملاقات کی تھی لیکن مولانا فضل الرحمان نے جگہ تبدیل کرنے سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ

ہمارا احتجاج پر امن ہوگا اور جگہ کی تبدیلی ممکن نہیں۔دوسری طرف تحریک انصاف کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ دھرنے کا مقصد عدلیہ پر دباؤ ڈالنا ہے۔

آج بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کارکنوں کی اتنی بڑی تعدادسپریم کورٹ کے باہر جمع ہے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے۔


متعلقہ خبریں