انتخابات کب؟ مناسب حکم نامہ جاری کریں گے، چیف جسٹس


چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کیس سے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی ٹائم فریم نہیں دیں گے، مناسب حکم نامہ جاری کریں گے۔

سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر تین رکنی خصوصی بینچ کا حصہ تھے۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر بات چیت کا وقت دیا۔ منگل کو ایاز صادق کی اسد قیصر سے لاہور میں ملاقات ہوئی۔ اسد قیصر نے بتایا کہ مذاکرات کا اختیار ان کے پاس نہیں۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چیئرمین سینیٹ نے مذاکرات کا عمل شروع کیا ہے۔ کل پی ڈی ایم اور اتحادیوں کے رہنماؤں کی ملاقات ہوئی جس میں چیئرمین سینیٹ نے 5 ارکان پر مشتمل کمیٹی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین سینیٹ نے پی ٹی آئی رہنماؤں سے نام مانگ لیے

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چیئرمین سینیٹ کس حیثیت میں یہ کام کررہے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ وہ ایک ادارے کے سربراہ ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کسٹوڈین آف ہاؤس ہیں۔ ہم نے جو تاریخ دی ہے اس پر ایک پارٹی کے علاوہ سب متفق ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مذاکرات کرنا آپ کا کام ہے ہمارا نہیں۔ آپ سیاسی مسائل کا حل نکالیں ہم اس پر کوئی وضاحت نہیں چاہتے۔ ہم یہاں پر اس لیے ہیں کہ آپ ہمیں اس کا حل نکال کر بتائیں۔

دوران سماعت پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آگئے۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی ایک جماعت جے یو آئی آج بھی سماعت میں نہیں آئی۔ پی ڈی ایم میں مذاکرات کے معاملے پر اختلافات ہیں۔ آپ کا حکم اب بھی موجود ہے، آپ نے قومی مفاد میں موقع فراہم کیا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم والوں نے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ انہوں نے اسد قیصر سے غیر رسمی طور پر رابطہ کیا۔ کل رات چیئرمین سینیٹ کا فون آیا، انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر رابطہ کررہا ہوں۔

ثالثی و پنچایت سپریم کورٹ کا کام نہیں، الیکشن کیلئے اکتوبر یا نومبر کی تاریخ بنتی ہے، وزیراعظم

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ سیاسی باتیں نہ کریں ان کو چھوڑ دیں۔ ان سے پوچھتے ہیں کہ یہ اب کیا چاہتے ہیں۔

دورانِ سماعت فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں یہاں کوئی سیاسی تقریر نہیں کرنا چاہتا۔ پارلیمان اور آئین کو کمزور نہیں کرنا چاہتا۔ میں بھی بہت کچھ بول سکتا ہوں، مذاکرات کیلئے ایک ماحول بنانا پڑتا ہے۔ ایسی باتیں نہ کی جائیں جس سے ماحول خراب ہو۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کام میں صبر اور تحمل چاہیے، ان کو بھی یہی تلقین کریں گے کہ صبر و تحمل ہو۔ عوام کی فلاح وبہبو د اور ان کے ووٹ کے حق کیلئے کسی حل پر پہنچتے ہیں تو بہتر ہے۔ اگر کسی حل پر نہیں پہنچتے تو جیسا چل رہا ہے وہ چلے گا۔

بعد ازاں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے سے متعلق کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کی سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کریں گے۔ جس کے بعد سپریم کورٹ کا بینچ اٹھ کر چلا گیا۔


متعلقہ خبریں