الیکشن التواء کیس، فیصلہ محفوظ، سپریم کورٹ کل فیصلہ سنائے گی

سپریم کورٹ

پنجاب خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا اور کل سنایا جائے گا۔

سپریم کورٹ میں پنجاب اورخیبرپختونخواالیکشن سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فاروق نائیک سے سوال کیا کہ کیا آپ کارروائی میں شامل ہونگے؟

انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی ہم کارروائی میں شامل ہوں گے،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ نے بائیکاٹ ختم کردیا؟

چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اخبارات میں بائیکاٹ کا چھپا ہوا ہے، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم نے کوئی بائیکاٹ نہیں کیا۔

فاروق ایچ نائیک نے موقف اختیارکیا کہ ہمارے بینچ سے متعلق کچھ تحفظات ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے اس موقع پر کہا کہ ٹی وی پر چلا ہے کہ ایک اہم میٹنگ ہوئی ہے، سب ٹی وی چینلز اعلامیہ کی خبریں چلاتے رہے ہیں، بتائیں کیا آپ نے وہ اعلامیہ واپس لیا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ابھی آپ کو سن نہیں رہے، اس پر وضاحت کریں،اگر آپ بائیکاٹ نہیں کررہے تو تحریری طور پر بتائیں۔

ن لیگ کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہمارا وکالت نامہ آپ کے پاس ہے۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آپ کا وکالت نامہ موجود ہے لیکن جو بیان دیئے گئے ہیں اس کا کیا؟

اس موقع پر اکرم شیخ نے کہا کہ ہم وکلا آپ کے سامنے آئے ہیں، اس کا مطلب آپ پر اعتبار ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ حکومتیں کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کرتیں۔

سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کے وکلا کو بیٹھنے کی ہدایت کی۔

حکومت کا سپریم کورٹ میں انتخابات سے متعلق کیس کے بائیکاٹ کا اعلان

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عمل در آمدضروری ہے۔

جس پر اٹارنی جنرل عثمان منصور نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ یکم مارچ کا فیصلہ بھی اس عدالت کا تھا،9رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا جس میں سے 4 ججز نے درخواستیں مسترد کیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے درخواستیں مسترد کی تھیں،جسٹس اطہر من اللہ نے درخواستیں مسترد نہیں کی تھیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ہمیں ایسی ہی توقع تھی۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے، جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ بہت تیز جارہے ہیں، اسٹیپ بائی سٹیپ آگے چلیں۔ انہوں نے کہا کہ عرفان قادر اٹارنی جنرل منصور عثمان کو ریسکیو کرنے آئے ہیں۔

اس موقع پر عرفان قادر نے کہا کہ میں کچھ دیر کے بعد آکر دلائل دوں گا،جسٹس منیب اختر نے عرفان قادر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اٹارنی جنرل کے پاس گئے ہیں، آپ کو علم ہے کہ بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا گیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ 9رکنی بینچ کے حکم نامے میں کتنے ججز کے دستخط موجود ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ 9رکنی بینچ کے فیصلے میں نو ججز کے دستخط موجود ہیں،9رکنی بینچ نے دو روز کیس کی سماعت کی تھی۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 9رکنی بینچ نے دو روز کیس کی سماعت کی تھی،اٹارنی جنرل نے بینچ کی تشکیل پر دلائل دیتے ہوئے عدالتی نظیریں پیش کی گئیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے کوئی ایسا کیس نہیں ملا جس میں چیف جسٹس کو بینچ تبدیل کرنے سے روکا گیا ہو،آپ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ جوڈیشل آرڈر نہیں ہے،سپریم کورٹ کی کارروائی عوامی مفاد کیلئے ہوتی ہے،ججز کی رائے الگ ہوتی رہتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے اور کتنے رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا؟

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ 27 فروری کو 9 رکنی بینچ نے ازسرنو تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا، اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو 5 رکنی تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس کوئی بھی پانچ ججز شامل نہیں کرسکتے تھے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چیف جسٹس پہلے والے اراکین شامل کرنے کے پابند نہیں تھے،جس عدالتی فیصلے کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ اقلیتی ہے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ یکم مارچ کو بھی کوئی عدالتی حکم نہیں تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کہنا چاہتے ہیں پانچ رکنی بینچ نہیں بنا تھا، ججز میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کیلئے بہت اہم ہے، ججز کے بہت سے معاملات آپس کے ہوتے ہیں، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالتی کارروائی پبلک ہوتی ہے لیکن ججز کی مشاورت پبلک نہیں ہوتی، تفصیلی اختلافی نوٹ بینچ کے ازسرنو تشکیل کا نقطہ شامل نہیں، نوٹ کے مطابق بینچ کی ازسرنو تشکیل انتظامی اقدام تھا۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ نوٹ کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے سماعت سے معذرت کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نوٹ کے مطابق چار ججز نے خود کو بینچ سے الگ کیا، بہتر طریقہ یہ تھا کہ لکھتے کہ چار ججز کو بینچ سے نکالا گیا،نو رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضاکارانہ الگ ہورہا ہے، کسی نے بینچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے، کوئی شق نہیں کہ جج کو بینچ سے نکالا نہیں جاسکتا۔عدالت بینچ کی ازسرنو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ازسرنو تشکیل میں تمام 5 نئے ججز آجاتے تو کیا ہوتا؟ کیا نیا بینچ پرانے دو ججز کے فیصلوں کو ساتھ ملا سکتا ہے؟ نیا بینچ تشکیل دینا جوڈیشل حکم تھا انتظامی نہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ججز نے کہا کہ آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں ہوا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکمنامے میں ایسا کچھ نہیں لکھا فٹ نوٹ آپ پڑھ رہے ہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 31 مارچ کو ایک سرکلر جاری کیا، سرکلر میں سپریم کورٹ کا فیصلہ ختم کر دیا گیا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ کیسے سرکلر سے ختم ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سرکلر میں از خود نوٹس کے انتظامی احکامات کو موخر کیا گیا،سرکلر میں کسی عدالتی فیصلے کو مسترد نہیں کیا،چیف جسٹس کے بغیر کوئی جج از خود نوٹس نہیں لے سکتا۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ دو ججز نے جو رائے دی تھی اسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کہا وہ اپنی شمولیت چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں، فرض کریں اگر کسی بینچ کا کوئی رکن بھی نہ ہو تو پھر سماعت نہیں ہوسکتی،انہوں نے مزید کہاکہ پانچ رکنی بینچ نے 2 دن کیس سنا، کسی نے کہا 2 ارکان موجود نہیں، اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ کیا کسی نے یہ کہا کہ بینچ 7 رکنی ہے؟ پہلی سماعت پر کوئی جج درخواست خارج کردے پھر بینچ میں نہ بیٹھے تو فیصلہ نیا کرے گا؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں پہلے دو ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور ازسرِنو سماعت ہوئی،بینچ ارکان نے دونوں ججز کے رکن ہونے کا نکتہ نہیں اٹھایا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ چارججز کی آراء کو سامنے رکھتے ہوئے درخواستیں خارج ہوئی ہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ زیر حاشیہ لکھا کہ دو ججز کی آراء ریکارڈ کا حصہ فیصلے کا نہیں،ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکمنامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نکتے پر قائل نہیں کرسکے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے میں اس کیس کو روکنے کا کہا گیا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلے میں خواہش ظاہر کی مگر کوئی ایسا حکم چیف جسٹس کو نہیں دیا جاسکتا، از خود نوٹس کے تمام مقدمات کو کیسے روک دیا جائے،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ ہمارے سرکلر کو چیلنج کر رہے ہیں؟

اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے کسی بینچ کا حکم سب پر لاگو ہوتا ہے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آپ موجودہ کیس کی بات کریں اس میں ایسی کوئی درخواست نہیں ہے،دو ججز نے فیصلہ دیا آپ اس کو جس طرح پڑھنا چاہتے ہیں پڑھیں۔

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سی سی پی او کیس میں انتخابات کا از خود نوٹس لیا،از خود نوٹس بنیادی حقوق کے علاوہ کسی اور معاملے پر نہیں لیا جاسکتا،پہلے از خود نوٹس کے اختیارات میں ترمیم ہو بعد میں کیسز سنے جائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کورٹ نے ازخود نوٹس کے اختیار کو استعمال میں احتیاط کیا ہے، انہو ں نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو کہہ رہے ہیں وہ مفروضوں پر مبنی ہے،بہت اہم معاملات پر از خود نوٹس لیا جاتا ہے، از خود نوٹس لیتے ہوئے سوچتے ہیں کہ دوسری طرف سے کوئی پیش بھی ہوگا یا نہیں، دو سابق اسپیکرز نے درخواستیں دائر کی تھیں،دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں،درخواستیں ہمارے سامنے آئیں اس لیے ان کو سنا،اسپیکرز کی درخواست کے علاوہ دو ججز نے از خود نوٹس لینے کی درخواست کی،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ چیزوں کو خود سے پالش کر کے پیش کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آج میں فل کورٹ کی تشکیل کے لیے درخواست لایا ہوں،کچھ دن پہلے میڈیا میں غلط رپورٹ ہوا کہ فل کورٹ کی درخواست مسترد ہوئی۔

جسٹس منیب اخترنے کہا کہ ایک طرف فل کورٹ کی بات دوسری طرف کیس موخر کرنے کا کہہ رہے،انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ اپنا ایک ذہن بنا لیں کہ عدالت سے چاہتے کیا ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ بہت اچھا کام کررہے ہیں، آپ نے فل کورٹ کی درخواست کی ہے، اس پر خود نوٹس کریں، جسٹس امین الدین خان سماعت سے معذرت کرچکے ہیں، جسٹس امین الدین خان کیسے دوبارہ سماعت میں شامل ہوسکتے ہیں؟ ہم کیس سن چکے ہیں، ایک وقت میں 14 ججز کیسے ایک ساتھ بیٹھ سکتے ہیں؟چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ معاملے پر آپ فل کورٹ کی استدعا کو مزید آگے نہ لے جائیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میری ایک استدعا لارجر بینچ کی بھی ہے جس میں 6ججز کو شامل کرنا چاہیے،دو مرتبہ فل کورٹ کی استدعا کی مگر مانی نہیں گئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کہا تھا کہ فل کورٹ کو بعد میں دیکھ لیں گے استدعا مسترد نہیں کی تھی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا، 27فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا؟ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی،جسٹس فائز عیسیٰ کا حکم خوبصورت لکھا گیا ہے، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں، گزشتہ 3دن میں سینئر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں، لارجر بینچ کے نکتے پر دلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں۔

اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے،3/2اور 3/4 کا فیصلہ باقی 2 ججز کو کرنے دیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا دونوں سیکریٹریز عدالت میں موجود ہیں،ان کو سن کر ان کو جانے دیتے ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ عدالت میں جمع کرارہے ہیں، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس وقت اہم معاملہ سیکیورٹی کا ہے اس پر سیکریٹری دفاع کوسنتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی سے متعلق اگر ان کیمرہ بریفنگ ہو تو بہترہوگا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ فائلیں ہمیں دیں، ہم ان کا جائزہ لیتے ہیں،آرمڈ فورسز صرف آرمی نہیں،اس میں نیوی اور ایئر فورس بھی شامل ہے،ہمیں بتایا گیا کہ 50 فیصد پولنگ اسٹیشن پر امن ہیں،کچھ ایسی فورسز ہیں جو محاذپر نہیں ہوتیں ان پرغور کیا جاسکتا ہے،ہم آپ کو علی ظفر کی موجود گی میں سنیں گے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ہم تو اوپن کورٹ میں سماعت کرتے ہیں، ہم یہاں کوئی بریفنگ نہیں لے رہے ان سے کچھ سوالات کررہے ہیں۔

سیکریٹری دفاع حمودالزمان روسٹرم پرآئے تو چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے درخواست پڑھی ہے،سیکرٹری دفاع کا کہنا تھا کہ ہم آپ کو پنجاب سے متعلق سیکیورٹی پران چیمبر بریفنگ دینا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم کورٹ سے الگ سنتے نہیں، لیکن علی ظفر سے بات کرلیتے ہیں، عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کو روسٹرم پر بلالیا، علی ظفر نے کہاکہ میرے خیال میں ان معاملات میں نہیں جانا چاہیے،سیکیورٹی کی صورتحال اتنی خراب نہیں،بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ڈیٹا دینا چاہتے ہیں تو وہ پیش کیا جائے،ریٹائرڈ فورسز بھی سیکیورٹی دے سکتی ہیں۔

سیکرٹری دفاع کا کہنا تھاکہ ریٹائرڈ فورسز کو ہم ریزروفورسز کہتے ہیں، ان کو بلانے کا بھی ایک طریقہ کار ہے۔


متعلقہ خبریں