وزیراعظم اور وزیرداخلہ سے جان کا خطرہ ہے، اسی لیے سیکیورٹی مانگ رہے ہیں، عمران خان


چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اور وزیرداخلہ سے جان کا خطرہ ہے، اسی لیے  سپریم کورٹ سےسیکیورٹی مانگ رہے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں سابق وزیر اعظم عمران خان  کا کہنا ہے کہ ان کی جان کو وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے ہی خطرہ ہے اس لیے سپریم کورٹ سے سکیورٹی مانگ رہے ہیں کیونکہ انھیں حکومت پر اعتبار نہیں۔

وزیر اعظم اور وزیر داخلہ پر الزام عائد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ مجھے مارنے کی سازش میں ملوث تھے۔ پہلے بھی جب مجھ پر حملہ ہوا تھا تو اس سے ایک ماہ قبل سے کہہ رہا تھا کہ مجھ پر مذہبی اتنہا پسندی کے نام پر حملہ ہونے والا ہے اور وہ ہو گیا۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں دہشت کی فضا ہے، اور ہم سب اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ مجھے جن سے خطرہ ہے انھوں نے ہی مجھے بچانا ہے۔

انھوں نے سکیورٹی دینے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ جب دو مرتبہ وہ لاہور اور اسلام آباد کی ہائیکورٹ میں پیش ہوئے تو ادھر کوئی خاطر خواہ سکیورٹی نہیں تھی اور اگر کوئی واردات کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ ہم صرف سکیورٹی مانگ رہے ہیں۔ اور اگر آپ نہیں دے سکتے تو اب ویڈیو کانفرنس پر سب ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:عدالت نے عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے

بی بی سی کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ لاہور میں تمام جماعتیں سیاسی سرگرمیاں کر رہی ہیں لیکن نگراں حکومت نے صرف ہماری ریلی پر پابندی لگائی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ ہمیں الیکشن مہم چلانے کی اجازت ہے یا نہیں؟

ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف میرے خلاف 80 مقدمات قائم کیے گئے ہیں اور میرے جماعت کے لوگوں پر بھی مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔اب جب ہم اپنی انتخابی مہم لانچ کرنا چاہ رہے ہیں تو وہ بھی نہیں کرنے دے رہے۔ آئندہ الیکشن پی ٹی آئی انتخابی مہم کے بغیر لڑے گی؟

انہوں نے ملک میں دہشتگردی کی حالیہ لہر اور طالبان کی واپسی پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ  افغانستان میں افغان طالبان نے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ٹی ٹی پی کے 30 سے 40 ہزار لوگ تھے جو افغانستان چلے گئے تھے ان کو واپس بلایا جائے، ان میں سے پانچ سے چھ ہزار جنگجو بھی تھے۔ اب جب افغان طالبان نے کہہ دیا کہ انھیں واپس لے جاؤ تو ہمارے پاس کیا راستہ تھا؟

ان کا کہنا ہے کہ یا تو ہم انھیں پکڑ کر کے مار دیتے یا پھر انھیں دوبارہ نہایت ہی منظم طریقے سے مقامی افراد کی مشاورت سے معاشرتی دھارے میں واپس لے کر آتے اور تو کوئی تیسری چوائس نہیں تھی۔پاکستان کے پاس ان سے مذاکرات کر کے انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ برس موسم گرما جب انتہا پسندی نے پہلی مرتبہ سر اٹھانا شروع کیا تو اس وقت پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت نے وفاقی حکومت سے کہا کہ یہ بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ آپ کچھ کریں۔ مگر کوئی ریسپانس ہی نہیں ملا۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ انہیں پاکستان میں لے آئے ہیں اور انہیں بحال بھی نہیں کیا تو مسائل تو آنے تھے۔ حل یہ ہے کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کریں اور اگر کسی چیز پر مذاکرات نہیں ہو سکتے، تو مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پھر آپ کو بندوقیں اٹھانی پڑیں گی۔پہلی کوشش تو ہونی چاہیے کہ انتشار نہ ہو۔ اس کے لیے مقامی لوگوں کو شامل کرنا بہت ضروری ہے۔


متعلقہ خبریں