پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے جہاں ایک تہائی رقبہ زیر آب آیا وہیں33 ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ذراعت کے شعبے کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگانا بے حد مشکل ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق سیلاب کے باعث تین ملین سے زیادہ فصلیں متاثر ہوئی ہیں اور دو ملین سے زیادہ لوگ غذائی قلت کا شکار ہوئے ہیں۔
ذرعی ماہر توصیف الحق کہتے ہیں کہ یہ ہمارے ملک کے لیے بہت بڑی تباہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کے بعد سب سے بڑا چیلنج فوڈ سیکیورٹی ہو گا۔ اسکے بعد جو زمینیں تباہ ہوئی ہیں ، ہمارے لئے چیلنج ہو گا کہ ہم انہیں کتنی جلدی بحال کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ ہمارے متاثرہ کسانوں کے پاس اپنی اگلی فصل اگانے کے لئے فنڈنگ نہیں ہے۔
توصیف الحق کا کہنا تھا کہ سیلاب کی وجہ سے ہماری جی ڈی پی متاثر ہوئی۔ کاٹن کی فصل تباہ ہونے کا اثر ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری پر آئے گا جس سے ہماری ایکسپورٹ متاثر ہوگی۔ ہماری ایکسپورٹ کم ہونے کا اثر پاکستان کی معیشت پر براہ راست پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ کپاس کی فصل کا نقصان نہ صرف سیلاب والے علاقوں میں بلکہ وہاں بھی ہوا ہے جہاں سیلاب نہیں آیا۔
سیلاب کے بعد بحالی کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فصلوں کے لئے مٹی کی اوپر والی تہہ بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ اگر سیلاب وہ تہہ بہا کے لے گیا تو یقینی طور پہ اگلی فصلیں متاثر ہونگی اور اصلاح میں وقت لگے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ جو پانی کھڑا ہے اور مٹی کے خدوخال خراب ہوئے ہیں تو اسے ٹھیک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مٹی کے ازسرنو ٹیسٹ کرنے پڑیں گے۔ اس کے بغیر ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ یہ مٹی کس فصل کے لئیے بہتر ہیں۔
توصیف الحق نے بتایا کہ انکی کمپنی “سیجنٹا پاکستان” ملک میں ذرعی شعبے میں تحقیقات کے حوالے سے خاطر خواہ کام کر رہی ہے۔ سیجنٹا پاکستان ذرعی شعبے کو جدید ٹیکنالوجی سے ہمکنار کرنے کے لئے کسانوں کو سہولیات کی فراہمی میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انکی کپمنی سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی اور امداد کے لئے مختلف اقدامات اٹھا رہی ہے۔سب سے پہلے ایک لوکل این جی او کے ساتھ پارٹنر بن کر ایک فنڈ قائم کیا گیا ہے جس میں ہمارے تمام ملازم اور ان کی فیلمی کے اراکین امداد دیں گے۔ یہ امداد سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اسکے علاوہ انکی ٹیمیں فلڈ ایریا میں موجود ہیں تاکہ کسانوں کو ذرعی رقبے اور فصلوں کی بحالی کے حوالے سے تجاویز دے سکیں۔
انکا کہنا تھا کہ وہ ایک ریلیف پیکج دیں گے تاکہ کسان اگلی فصلیں اگا سکیں۔ بطور ذرعی ماہر انہوں نے تجویز کیا کہ پاکستان میں ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔ جب تک ہم ذراعت کو جدت سے ہمکنار نہیں کرتے ،، اپنی ذرعی پیدوار کو نہیں بڑھا سکتے۔
اس سلسلے میں انہوں نے تجویز کیا کہ ری جنریٹو ایگریکلچر کی تکنیک کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ریجنریٹو ایگریکلچر میں چونکہ پرانی فصلوں کی باقیات کو نامیاتی کھاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اسلئے زمین کی بالائی سطح پر موجود ذرخیزی کے اجزاء برقرار رہتے ہیں۔ سیلاب جیسی آفت کی صورتحال میں بھی زمین کی یہ ذرخیز تہہ محفوظ رہتی ہے۔