خاتون ایڈیشنل سیشن جج کو دھمکی دینے کے توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کے تحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر دکھ ہوا۔ عمران خان کے وکیل سوچ سمجھ کر سات دن میں دوبارہ جواب جمع کروائیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار بینچ میں شامل ہیں.
چیف جسٹس نے کہا کہ ماتحت عدلیہ بہت مشکل حالات میں کام کر رہی ہے ، عام آدمی ستر سال میں بھی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک رسائی نہیں کر سکتا، ضلعی عدالت عام آدمی کی عدالت ہے، عمران خان کے تحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر افسوس ہوا۔ جس حالت میں ماتحت عدلیہ کام کر رہی ہے انکا اعتماد بڑھانے کیلئے اس عدالت نے بہت کام کیا، اس عدالت کو توقع تھی کہ آپ اس عدالت میں پیش ہونے سے پہلے وہاں سے ہو کر آتے۔
جس طرح گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا زبان سے کہی ہوئی چیز واپس نہیں آتی ، جبری گمشدگیاں بد ترین ٹارچر ہے بلوچ طلبہ کے ساتھ جو ہوا وہ بھی ٹارچر ہے، تین سال سے ہم اس معاملہ کو وفاقی حکومت کو بھیجوا رہے ہیں لیکن ٹارچر کے معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا گیا، آپ کا جواب اس بات کا عکاس ہے کہ جو ہوا اس کا آپ کو احساس تک نہیں، آپ کے موکل کو احساس نہیں کہ انہوں نے کیا کہا ہے، کاش اپنے دور حکومت میں اس ٹارچر کے مسئلے کو اس جذبے سے اٹھاتے، اسد طور ابصار عالم کے کیسز آپ دیکھ لیں، اگر تب یہ مسئلہ سنجیدگی سے دیکھا گیا ہوتا تو آج نہ ٹارچر کا مسئلہ ہوتا نہ بلوچ طلبہ کا۔
چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے کہا کہ آپ اس عدالت کے معاون ہے خود کو کسی کا وکیل نہ سمجھیں، عدالت نے شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر کو شہباز گل کیس کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کی ۔جس کے بعد شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر نے کیس کا عدالتی فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
یہ بھی پڑھیں: سیلاب متاثرہ علاقوں میں پاک فوج کا ریلیف آپریشن جاری
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اڈیالہ جیل کس کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں ہے؟ کیا ٹارچر کی ذرا سی بھی شکایت ہو تو کیا جیل حکام ملزم کو بغیر میڈیکل داخل کرتے ہیں؟ یہ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ سے کب نمٹائی گئی اور تقریر کب کی گئی؟ وکیل نے کہا کہ پٹیشن 22 اگست کو نمٹائی گئی اور تقریر 20 اگست کو کی گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا تھا تو تقریر کی گئی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس نے کیس ریمانڈ بیک کیا تھا، کیا عمران خان کے اس وقت دیے گئے بیان کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟ یہ عدالت تنقید کو خوش آمدید کہتی ہے فیصلوں پر جتنی تنقید کرنی ہے کریں۔
اس عدالت کو رات 12بجے کھلنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، ہم تو ہمیشہ سے ہی انصاف کی فراہمی کے لیے موجود تھے ، یہ وہ عدالت جو صرف قانون پر چلتی ہے اس کے تمام ججز غیر جانبدار ہیں، ماتحت عدلیہ کے ججز کوئی ایکس اور وائے نہیں، اس عدالت نے آرڈینس کالعدم قرار دیا اگر آج وہ ہوتا تو گرفتاریاں بھی ہوتیں ضمانت بھی نا ہوتی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ سیاسی لیڈرز کی اس وقت کے بیانات آپ دیکھ لیں، یہ عدالت کیوں بارہ بجے کھلی ؟ سوال اٹھانا آپ کا حق ہے، لیکن یہ عدالت کمزور کے لیے بھی اور چھٹی کے روز بھی 24 گھنٹے کھلی رہی ہے ، انہوں نے بڑے اچھے انداز میں گلہ کیا کاش اسی انداز میں ماتحت عدلیہ کے جج کو ایڈریس کرتے ، سیاسی لیڈر کی بہت حیثیت ہوتی ہے ہر وقت بہت اہم ہوتا ہے، اس عدالت کے کسی جج کو کوئی influence نہیں کر سکتا، آج موقع ہے تو آج بتا دیتے ہیں کہ عدالت رات کو کیوں کھلی تھی، اس عدالت کے ذہن میں تھا کہ جو 12 اکتوبر کو ہوا وہ دوبارہ نہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں: رات لوگوں نے دیکھ لیا فارن فنڈنگ کیسے ہوتی ہے؟ 3 گھنٹوں میں 5 ارب روپے جمع کر کے دکھائے، عمران خان
میری سپریم کورٹ کے ایک جج کے ساتھ فوٹو تھی جسے ایک سیاسی جماعت کا عہدیدار بنا کر وائرل کیا گیا، مجھے ایک فلیٹ کا مالک بھی بنا دیا گیا، ہمارے ادارے نے بھی بہت غلطیاں کی ہیں جن پر تنقید کو ویلکم کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر ججز کی تصویریں لگا کر الزامات لگائے جاتے ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے فالوورز کو منع نہیں کرتی۔
طلال چوہدری کیس ، دانیال چوہدری کیس اور ہاشمی کا کیس بھی عدالت کے سامنے ہے، آزادی رائے کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ، آپ نے جو جواب جمع کرایا وہ عمران خان جیسے لیڈر کے رتبہ کے مطابق نہیں۔
عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ میں نے درخواست کے قابل سماعت نہ ہونے کا نکتہ بھی اٹھایا ہے، اس کے علاوہ بھی باتیں کی ہیں، جواب کا صفحہ نمبر 10 ملاحظہ کریں، عمران خان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل افسر کے بارے میں یہ کہیں۔
عدالت نے عمران خان کے وکیل کو دوبارہ جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی، چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب سوچ سمجھ کر جواب جمع کروائیں۔
تمام عدالتی کارروائی کو شفاف رکھیں گے، دانیال عزیز، طلال چوہدری اور نہال ہاشمی کیسز میں سپریم کورٹ کے فیصلے دیکھ لیں، توہین عدالت کیسز پر سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل لازم ہے، آپ تحریری جواب دوبارہ جمع کرائیں ورنہ ہم کارروائی آگے بڑھائیں گے، طلال چوہدری، نہال ہاشمی اور دانیال عزیز میں فیصلوں کو سامنے رکھتے ہوئے جواب دیں، پھر کہہ رہا ہوں کہ اس معاملے کی حساسیت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یہ کارروائی آج ہی ختم ہو سکتی تھی لیکن آپکے جواب سے یہ ختم نہیں ہو گی، آج تو کارروائی آگے بڑھائی جانی چاہیے تھی لیکن چیف جسٹس آپکو ایک اور موقع دے رہے ہیں، چیف جسٹس آپ کو ایک اور موقع دے رہے ہیں تو دوبارہ جواب جمع کرائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس ملک میں اصل تبدیلی تب آئے گی جب سول سپریمیسی ہو گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سات روز میں عمران خان کو دوبارہ جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا، اور منیر اے ملک ، مخدوم علی خان اور پاکستان بار کونسل عدالتی معاون مقرر کر دئیے گئے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان کے جواب کی پیشگی نقول عدالتی معاونین کو فراہم کرنے کا کہا جائے۔
عدالت نے منیر اے ملک مخدوم علی خان کو امائکس مقرر کر دیا، چہف جسٹس نے کہا کہ آپ کو عدالتی ریکارڈ سے پتہ چلے گا کہ ہم ایسے معاملات کو ایگزیگٹوز کو بھیجتے رہے ہیں لیکن کسی نے سنجیدہ نہیں لیا ، پچھلے تین سالوں میں ایک کیس کی بھی تحقیقات نہیں ہوسکی ، الزام لگایا جاتا ہے کہ ہماری عدلیہ 130 نمبر پر ہے میں نے فواد چوہدری کے ساتھ میٹنگ میں انہیں بتایا کہ یہ چیف ایگزیکٹو کی غفلت کا معاملہ ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ وقت ہے ہم ایک پاکستان کی تعمیر نو کریں ، پیکا آرڈیننس اگر معطل نہ ہوتا تو اج آدھا پاکستان جیل میں ہوتا، قانون سے بالاتر کوئی نہیں ہے۔ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی مزید سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: مزید ممکنہ بارشوں سے صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے، شہباز شریف
گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے توہین عدالت کیس میں الفاظ واپس لینے کی پیشکش کی تھی، ذرائع کے مطابق عمران خان کا جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرادیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ججز کے احساسات کو مجروع کرنے پر یقین نہیں رکھتے، الفاظ غیر مناسب تھے تو واپس لینے کےلیے تیار ہوں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت تقریر کاسیاق و سباق کیساتھ جائزہ لے،پوری زندگی قانون اور آئین کی پابندی کی ہے، عمران خان نے استدعا کی کہ ان کیخلاف توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔ یاد رہے عمران خان نے عدالتی بینچ پر بھی اعتراض اٹھایا ہے۔