افغانستان کے سیاسی رہنماوں نے کہا ہے کہ انہیں افغانستان میں مسائل کے فوجی حل پر شدید تشویش ہے اور کسی ایک جماعت کی حکومت قابل قبول نہیں۔ افغانستان میں تمام مکاتب فکر کی مشترکہ حکومت ہی اہمیت کی حامل ہو گی۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے افغان سیاسی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کابینہ کی دعوت پر اسلام آباد آئے ہیں،افغانستان میں چند مسائل کے باعث دورہ ایک ماہ تاخیر سے ہوا،15اگست کو جب یہ دورہ شروع کیا توکابل میں صورت حال تبدیل ہو گئی۔
افغان سیاسی رہنماوں کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پرامن جامع سیاسی تصفیہ کی راہ ہموار کرنے کے لیے دورہ کیا۔افغان عوام، عالمی برادری کی امنگوں کے برعکس فوجی حل کو ترجیح دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سے زیادہ کوئی ملک افغانستان میں امن کا خواہاں نہیں، عمران خان
افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل تک عوام کو تشدد سے بچانے کے دو اہداف ہیں،طالبان کے زیر اثر نہ آنے والے علاقوں کو جنگ و جدل سے بچانا ہے۔عوام کو حق شہریت، انسانی حقوق، ووٹ کا حق اور بنیادی حقوق کی فراہمی ناگزیر ہے۔
افغاان وفد کا کہنا تھا کہ طالبان نے 1996ء کی غلطیاں دہرائیں تو ان کا انجام پہلے جیسا ہو گا،اگر وہ تبدیل ہو چکے تو اس کا اپنے عمل سے یقین دلائیں۔افغانستان میں حکومت تمام سیاسی جماعتوں اور اکائیوں کی شمولیت سے ہی ممکن ہے۔
افغان وفد نے کہا کہ ان کی وزیراعظم، وزیر خارجہ، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی سے انتہائی مفید ملاقاتیں ہوئیں۔پاکستانی قیادت کے انتہائی شکر گزار ہیں۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے شکر گزار ہیں،یہ جان کر خوشی ہوئی کہ پاکستان کا افغانستان بارے مؤقف انتہائی واضح ہے۔