سوشل میڈیا قوانین میں ابہام موجود ہے، سیکرٹری برائے قانون و انصاف


اسلام آباد: پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون و انصاف ملیکہ بخاری نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا قوانین پر ابہام موجود ہے حکومت اس پر نظر ثانی کرے گی۔

ہم نیوز کے پروگرام بریکنگ پوائنٹ ود مالک میں بات کرتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون و انصاف ملیکہ بخاری پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) آج بھی اپنی بات پر قائم ہے کہ میڈیا کو آزاد ہونا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم قانون کے دائرے سے باہر ہیں جن کے لیے قانون بنانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سوشل میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیوں پر اٹھنے والی آوازوں کو سن رہی ہے اور اس کو دیکھتے ہوئے اس قانون میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے قانون میں تبدیلی کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔

ملیکہ بخاری نے کہا کہ سوشل میڈیا پر پابندیاں لاگو کرنے کے لیے حکومت کو پہلے سوچنا پڑے گا کہ کس طرح سے قانون لانا ہے۔ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر لوگ بہت زیادہ غیر اخلاقی چیزیں شیئر کر رہے ہوتے ہیں جس سے لوگوں کی عزت نفس بھی متاثر ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بہت سارے صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ حکومتی قانون کو تسلیم نہیں کر رہے جس کے بعد اب حکومت کو اپنے قوانین پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔ ہر ریاست کے اپنے کچھ اصول ہوتے ہیں لیکن واقعی قانون میں ابہام نہیں ہونا چاہے۔ جھوٹی خبروں کا بھی سوشل میڈیا پر بہت زیادہ اثرات ہیں۔

ڈیجیٹل رائٹس ایکٹوسٹ فریحہ عزیز نے کہا کہ سوشل میڈیا کے لیے قانون بنانے کا اختیار وزارت آئی ٹی نہیں بلکہ پی ٹی اے کے پاس ہے اور وہ اس پر قانون لاگو کر سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے دور میں قانون سازی سے قبل بحث شروع کی گئی تھی لیکن پی ٹی آئی نے تو کسی بحث کو ضروری ہی نہیں سمجھا بلکہ براہ راست ہی قوائد و ضوابط لاگو کر دیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ دفعہ 39 کسی صورت بھی مناسب نہیں ہے اس کو سوشل میڈیا قانون سے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ لڑکیاں ہراساں کے معاملے پر اب ایف آئی اے جانا نہیں چاہتیں کیونکہ انہیں پھر بھی انصاف نہیں ملتا۔

یہ بھی پڑھیں بنی گالا میں چھاپے مارے جائیں تو لوٹ مار سامنے آ جائے گی، مریم اورنگزیب

ماہر قانون فیصل نقوی نے کہا کہ سوشل میڈیا کو حدود میں رکھنا چاہیے لیکن اس پر پہلے بحث ہونی چاہیے ورنہ سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان سے چلی جائیں گے جس کا نقصان پاکستان کو ہی ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ فیس بک کو گزشتہ سال حکومت نے 14 ہزار پوسٹیں ہٹانے کی درخواستیں دیں جس پر فیس بک نے 90 فیصد عمل کیا تو پھر حکومت کو کسی بھی قانون کو لاگو کرنے کی کیا ضرورت پیش آ گئی۔ اس طرح کے قانون لانے سے پاکستان پر معاشی معاملات بھی خراب ہوں گے۔

فیصل نقوی نے کہا کہ حکومت اپنے لاگو کردہ قانون کو واپس لے اور اس پر پہلے بحث کرائے۔ فیک نیوز کی وجہ سے اتنا بڑا قانون لے آیا گیا ہے جو کسی صورت درست نہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ میڈیا کے حوالے سے کوئی بھی قانون بنایا گیا وہ صحافیوں پر پابندی کے لیے ہی بنایا گیا۔ کون سی ریگولیشن کے تحت صحافیوں کو پابند کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کے موجود قوانین پر عمل کرے ان پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔ صحافیوں کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور انہیں نہ صرف اٹھا کر لے جایا جاتا ہے بلکہ انہیں دھمکیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والا دنیا کا بڑا ملک ہے، سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ

مظہر عباس نے کہا کہ حکومت اگر کسی خبر کو فیک سمجھتی ہے تو وہ عدالت جا سکتی ہے اس میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ چیئرمین پیمرا کو تو کئی بار معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کوئی چینل بند کر دیا گیا ہے انہیں بھی بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ کس وجہ سے چینل بند کیا گیا ہے۔


متعلقہ خبریں