آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع پر مداخلت نہیں کرنی چاہیے، ماہر قانون


کراچی: ماہر قانون بیرسٹر محمد سیف نے کہا کہ آرمی چیف کی توسیع کا اختیار آئین دے رہا ہے تو اس میں کسی دوسرے ادارے کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیا سے بات کرتے ہوئے ماہر قانون بیرسٹر محمد سیف نے کہا کہ اداروں کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں ہے تاہم صورتحال خراب ہونے کا تاثر مل رہا ہے۔ سپریم کورٹ جیسا ذمہ دار ادارہ کوئی نہیں ہے۔ حکومت سے صرف غلطیاں ہی نہیں بلنڈر ہوئے ہیں جو انتہائی بچکانہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب سپریم کورٹ اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے تاہم آرمی چیف کی ذات موضوع بحث بننا ہمارے لیے انتہائی بدقسمتی کی بات ہے۔ اگر آرمی چیف کی توسیع کا اختیار آئین دے رہا ہے تو اس میں کسی دوسرے ادارے کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی کسی کی نیت پر شک کرنا چاہیے۔

بیرسٹر محمد سیف نے کہا کہ وزیر اعظم کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے ایک ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف کو توسیع دینی چاہیے تو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ درست ہے۔

انہوں ںے کہا کہ سپریم کورٹ کو آرمی چیف کی حساسیت کا خیال کرنا چاہیے لیکن اگر آرمی کی مدت ملازمت میں توسیع پر اعتراض ہے تو پھر قانون میں ترمیم کر کے اسے طے کر لینا چاہیے تاہم حکومت سے کوئی اچھے کی امید نہیں ہے وہ تو بس غلطیوں پر غلطیاں کر رہی ہے۔

سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب راجہ عامر عباس نے کہا کہ حکومت کو خامیوں کو دور کرنا چاہیے تھا اور عدالت کے پوچھے گئے سوالات پر تسلی بخش جواب دینے چاہیے تھے جس میں حکومت ناکام ہوئی تاہم عدالت نے انہیں ایک دن کی مہلت دی۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر سب سے زیادہ نقصان ریاست کو ہوا ہے۔ وزیر اعظم کو اختیار ہے کہ وہ آرمی چیف کو اپنے ساتھ کتنے عرصے تک رکھ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں آرمی چیف کے معاملے پر حکومت کی نااہلی کھل کر سامنے آ گئی، تجزیہ کار

راجہ عامر عباس نے کہا کہ اگر آرمی چیف کی مدت ملازمت بڑھائی جاتی ہے تو پھر فوج کے اندر ہی ایک اضطراب پیدا ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ کی سماعت کو ان کیمرہ کرنا چاہیے تاکہ عوام کے اندر پیدا ہونے والی فکر مندی ختم ہو۔

انہوں نے کہا کہ قانون سازی جن کو کرنا چاہیے تھی انہوں نے اس پر توجہ ہی نہیں دی۔ سپریم کورٹ حکومت کو ہدایت دے سکتی ہے کہ قانون میں کہاں کہاں سقم ہے اسے دور کیا جائے۔

پروگرام کے میزبان عامر ضیا نے کہا کہ سب سے زیادہ دباؤ کا شکار حکومت کی قانونی ٹیم رہی کیونکہ آرمی چیف کی توسیع کا مسئلہ ان کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ جو کام باآسانی ہو سکتا تھا اسے مشکل بنا دیا گیا جس کی وجہ سے پاک فوج جیسا ادارہ زد میں آ گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کل عدالت میں اس الجھی ڈور کو سلجھانے کے لیے حکومت کیا حکمت عملی اختیار کرے گی ؟


متعلقہ خبریں