راولپنڈی: ڈی جی انٹر سروسز پبلک ریلیشن(آئی ایس پی آر) میجر جنرل آصف غفور نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کو الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ یہ جو لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اب ان کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
جی ایچ کیو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پی ٹی ایم کے ساتھ سب سے پہلے میری ملاقات ہوئی۔ ان کے مطالبات تھے کہ فاٹا میں بارودی سرنگیں موجود ہیں جنہیں ختم کیا جائے۔ جس پر ہم نے 48 انجینئرز کی ٹیم لگائی جس نے علاقہ کو کلیئر کیا اور اس آپریشن میں سو سے زائد ٹیم کے اراکین کی جانیں گئیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کا دوسرا مطالبہ تھا کہ وہاں سے چیک پوسٹیں بھی ختم کی جائیں۔ خیبر پختونخوا میں جانیں دینے والے ملک بھر کے نوجوان تھے یہ اس وقت کہاں تھے جب انہیں دہشت گردی کا سامنا تھا۔ پی ٹی ایم والے تو اس علاقہ میں رہتے بھی نہیں ہیں۔ محسن داوڑ اور منظور پشتین اس وقت کہاں تھے جب لوگوں کے گلے کاٹے جا رہے تھے۔
آصف غفور نے کہا کہ پی ٹی ایم والے جو پختون کے نام رقم جمع کر رہے ہیں وہ کہاں خرچ کیے گئے یہ اس کو حساب دیں۔ وہ یہ بھی بتائیں کہ ان کو بھارتی خفیہ ایجنسی را نے جو رقم دی ہے وہ کہاں استعمال ہوئی۔ یہ بتائیں کہ ان کو حوالہ ہنڈی کے ذریعہ کتنا پیسا آ رہا ہے۔ منظور پشتین کا کون سا رشتہ دار تھا جو بھارتی قونصل خانے میں گیا۔
انہوں نے کہا کہ مشعل خان کینیڈا سے کابل کیوں آیا اور اس کا پی ٹی ایم سے کیا تعلق ہے ؟ افغانستان میں جو بندہ فوج کی سپورٹ میں بولتا ہے وہ مارا جاتا ہے کیوں ؟ تحریک طالبان پاکستان آپ کے حق میں کیوں بیان دیتے ہیں جب کہ ہم نے ان کے خلاف آپریشن کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اگر آپ نے جائز طریقہ سے بھی رقم اکھٹی کر لی ہے تو پھر تو آپ ترقیاتی کام شروع کریں بلکہ کوئٹہ اور دیگر شہروں میں جلسہ کیوں کرتے ہیں اور بیرون ملک جانے کے بعد پی ٹی ایم کے رہنما پاکستان اور فوج کے خلاف بولنے والوں سے ملاقاتیں کیوں کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایس پی طاہر داوڑ کی میت وصول کرنے پی ٹی ایم والے کس حیثیت سے سرحد پر گئے تھے جب کہ یہ دو ممالک کا معاملہ تھا اور انہوں نے میت پاکستان کو دینے کی مخالفت کیوں کی۔
بھارت ہمارے عزم کا ٹیسٹ نہ لے
ان کا کہنا تھا کہ بھارت ہمارے عزم کا ٹیسٹ نہ لے وہ یاد رکھے یہ 1971 نہیں ہے اور اگر اس وقت آج کا یہ میڈیا ہوتا تو 1971 کا سانحہ کبھی نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 26 فروری کو بھارت کے حملے کو ناکام بنایا، گزشتہ دو ماہ سے بھارت بے پناہ جھوٹ بول رہا ہے۔ بھارت خطے میں امن کے لیے سنجیدہ ہے تو آئے اور مذاکرات کرے۔
آصف غفور نے کہا کہ ہم نے بھارتی حملے میں ایک ہی پائلٹ گرفتار کیا تھا، ایک ہی پائلٹ کی دو جگہ سے گرفتاری کی رپورٹ آئی تھی اس وجہ سے غلطی سے دو پائلٹ کی گرفتاری چل گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بھارت کو جواب دیا تھا کہ پلوامہ حملہ میں پاکستان ملوث نہیں ہے۔ جھوٹ کا جواب ایک بار ہی دیا جاتا ہے بار بار نہیں۔ بھارت نے اس کے باوجود پاکستانی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی جس کا پاکستان نے بھر پور جواب دیا۔
مزید پڑھیں: ہم ہر طرح کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر
آصف غفور نے کہا کہ ہم نے بھارت کے دو جہاز مار گرائے جسے پوری دنیا نے دیکھا اور اگر بھارت نے ہمارا ایف سولہ گرایا تو وہ کہاں گیا ؟ ہم نے بھارت کے حملے کو ناکام بنایا اور میڈیا کو لے جا کر بھی دکھایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے دعویٰ کیا کہ پاکستان پر حملے میں 300 دہشت گرد مارے گئے اور وہ پھر اپنے اسی بیان سے پیچھے بھی ہٹا گیا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ پاک بھارت کشیدگی میں پاکستانی میڈیا اور سیاستدانوں نے انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیا جب کہ بھارتی میڈیا پروپیگنڈا کرتا نظر آیا۔ جس کو اپنے اندر بہتری لانے کی بہت ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف اب بھی کچھ کرنا باقی ہے۔ کشمیر ہماری رگوں میں دوڑتا ہے اور ہر پاکستانی بچہ کشمیر کے لیے لڑنے کو تیار ہے۔ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغان جنگ کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑا۔ افغانستان کو گزشتہ 40 سال سے جنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد خطے میں تبدیلی آئی جب کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی۔
آصف غفور نے کہا کہ 70 ممالک کی انٹیلی جنس کے ساتھ ہماری شیئرنگ ہوتی ہے، القاعدہ کے دہشت گرد پاک افغان سرحد پر موجود تھے جب کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے پاکستان نے بہت نقصان بھی اٹھایا ہے۔ پر تشدد تنظیموں کو ختم کرنے کے لیے پاکستان نے انہیں کالعدم بھی قرار دیا اور پاکستان نے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے 81 ہزار جانوں کی قربانیاں دیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آج کسی قسم کی دہشت گردی کا انفرا اسٹریکچر موجود نہیں ہے۔ 2014 میں نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تو اس وقت پلوامہ واقعہ نہیں ہوا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان کے وقت تو ایف اے ٹی ایف بھی نہیں تھا۔
مدارس کو وزارت تعلیم کی نگرانی میں دینے کا فیصلہ
آصف غفور نے کہا ملک کے تمام مدارس کو وزارت تعلیم کی نگرانی میں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس پر تمام علمائے کرام بھی متفق ہیں جب کہ ماضی میں مدارس وزارت صنعت کے ماتحت تھے۔ اب ایک ایسا سلیبس بنایا جائے گا جس میں نفرت انگیز مواد نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کو 40 سال سےجنگ کا سامنا ہے جس کا براہ راست اثر ہمارےخطے پر پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایرانی انقلاب کا اثر یہ پڑا کہ یہاں مدارس بڑھے اور جہاد کی فضا قائم ہوئی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 9/11 کے بعدصورت حال تبدیل ہوناشروع ہوئی اور جیواکانومی شروع ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 30 ہزار سے زائد مدرسوں میں 25 لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں، ہم نے مدرسوں کو قومی دھارے میں لانےکا فیصلہ کیا ہے جس پر تمام علمائے کرام متفق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں تمام مدارس وزارت صنعت کےماتحت تھے تاہم اب ان کو وزارت تعلیم کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
میجرجنرل آصف غفور کے مطابق ستر فیصد مدرسوں میں فی طلبہ ہزار روپیہ ماہانہ خرچ ہوتا ہے جبکہ کچھ میں ماہانہ چار سے چھ ہزار جبکہ دیگر میں ماہانہ 15 سے 20 ہزار کی رقم خرچ ہوتی ہے تاہم ان کی تعداد بہت کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسا نصاب بنائیں گے جس میں نفرت انگیز مواد نہ ہو، آرمی چیف کا موٹو ہے اپنے فقہ کومت چھوڑو دوسرے کے فقہ کو مت چھیڑو۔
میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پریس کانفرنس کے اختتام پر پشتو میں بھی بات کی۔