بھارتی لابی کی طرف سے پاکستان کو بین الاقوامی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) میں دبانے کی کوشش ناکام ہو گئی۔
بھارت پلوامہ حملہ کو پاکستان سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنڈنگ سے جوڑنا چاہتا تھا تاہم پلوامہ حملے کے حوالے سے بھارت ایف اے ٹی ایف میں کوئی ثبوت نہ پیش کر سکا۔
رپورٹس کے مطابق ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو مئی 2019 تک اپنے ایکشن پلان کی اہداف کو حاصل کرنے اوراپنی زمین سے جڑی ہر دہشت گردی کی روک تھام کرنے پر زور دیا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ کی روک تھام کےلئے پوری طرح اقدامات اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔
عالمی تنظیم کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان منی لانڈرنگ سے القاعدہ، آئی ایس جیسی تنظیموں کو ہونے والے فائدے کے خطرے کو پوری طرح ادراک نہیں کرسکا تاہم ایف اے ٹی ایف پاکستان کے ساتھ کام جاری رکھے گا ۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر جلد از جلد مکمل عملدرآمد کرنا ہوگا، ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مسلسل کام سے پاکستان گرے لسٹ سے بھی نکل جائے گا ۔
’پاکستان کو منی لانڈرنگ کے مقدمات میں پراسیکیوشن کے لئے بھی مزید محنت کی ضرورت ہے، سینکشنز لگانے کے بعد ان پر عمل درآمد بہت ضروری عمل ہے تاکہ دہشت گردی کے خلاف فنڈنگ کو روکا جاسکے۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2018 میں ایف اے ٹی ایف نے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان اینٹی منی لانڈرنگ کی خامیاں دور کرے اور کاؤنٹر ٹیرارزم فنانسنگ کی روک تھام میں اصلاحات لائے۔ پاکستان سے ایکشن پلان پر مزید تیزی سے عمل کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔
جنوری 2019 میں سڈنی میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کو آگا کیا تھا کہ 27 سے زائد شرائط پر من و عن عمل کیا گیا ہے اور ہم اقوام متحدہ کی شق 1267 اور 1373 پر عمل پیرا ہیں۔
پاکستانی حکام نے ایف اے ٹی ایف کو آگاہ کیا تھا کہ کالعدم تنظمیوں کے اکاؤنٹ اور اثاثے منجمد کیے گئے ہیں۔
پاکستانی وفد نے ایف اے ٹی ایف کو گزشتہ چار سال میں مشکوک ٹرانزیکشن پر بھی رپورٹ دی تھی کہ گزشتہ چار سال میں تین ہزار 677 مشکوک ٹرانزیکشن اور جعلی بینک اکاؤنٹس کے خلاف کارروائی کی گئی، سال 2015 میں 420، سال 2016 میں 697، سال 2017 میں 1603 اور سال 2018 میں 957 مشکوک ٹرانزیکشنز سامنے آئی تھیں۔