پاکستان میں الیکشن 2018 میں چار ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ انتخابی عمل یا اس کی تیاریوں پر تو سوال اٹھ رہے ہیں لیکن اس کی حقیقی بنیاد یعنی سیاسی جماعتوں کے منشور سامنے نہ آنے پر غضب کا سکوت طاری ہے۔
انتخابی عمل جمہوریت کو پرکھنے یا اس کا معیار جانچنے کا اہم ترین مرحلہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں یا امیدوار اس مرحلے کے اہم کردار کہلاتے ہیں، ان کا انتخابی پروگرام یہ بتاتا ہے کہ جمہوریت کی پٹڑی پر موجود گاڑی کا رخ کس جانب ہے۔ یہ پروگرام یا منشور ایسی ہی بنیادی حیثیت رکھتا ہے جیسی انسانی جسم کے لیے روح کو حاصل ہے۔
سیاسی جماعت یا امیدوار کا منشور اس کی اہلیت اور پروگرام کا جامع ہونا اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ وہ مسائل کا ادراک اور ان سے نکلنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
منشور کی موجودگی اور اس کی جامعیت انتخابی عمل کی سنجیدگی کا ثبوت اور امیدوار یا اس کی جماعت کی ان ترجیحات کا اعلان بھی ہوتا ہے جو ووٹر سے متعلق ہوتی ہیں۔
اس تحریر کو لکھتے وقت تک صرف متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے آئندہ انتخابات کے لیے اپنا منشور پیش کیا ہے۔ الیکشن 2018 میں جیت کر آئندہ حکمرانی کی دعویدار ن لیگ، تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، گروہوں میں بٹی ایم کیو ایم نے ابھی تک منشور کے ’میم‘ پر بھی عمل نہیں کیا ہے۔
کسی نے ہفتوں، کہیں مہینوں اور کہیں اس سے بھی پہلے منشور کمیٹیوں کا اعلان کیا تھا۔ کوئی اس لفظ کو صرف ٹوئٹر پر گفتگو کا موضوع بنائے ہوئے ہے، کہیں مرکزی قیادت کی دیگر مصروفیات منشور نہ ہونے کا جواز ہیں تو کہیں عمل سے یہ کہا گیا کہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ووٹر اپنی رائے دینے کے لیے امیدوار یا سیاسی جماعت کے انتخاب میں منشور کو اہمیت نہیں دیتا یا اسے بہت کم سطح پر رکھتا ہے۔ مگر اس بات کو جواز بنا کر منشور پیش نہ کرنا یا اس کی افادیت کو کم سمجھنا ایسا ہی ہو گا جیسے کسی نئے بننے والے گھر میں بجلی کی مکمل وائرنگ کر دی جائے، جدید اور خوبصورت ترین لائٹیں بھی نصب ہوں، رہائش گاہ کو آرام دہ اور پرتعیش بنانے والے برقی آلات بھی لگا دیے جائیں لیکن بجلی کی مرکزی لائن سے کنکشن ہی حاصل نہ کیا جائے۔ کوئی بھی صاحب عقل ایسی عمارت کو مکمل نہیں مانے گا، الٹا بنانے والے کی اہلیت و حیثیت مشکوک ہو جائے گی۔
بروقت منشور پیش کرنا، اس کی جامعیت کو یقینی بنانا، دعوے نہیں عمل کو اس کی اساس بنانا، اپنے پروگرام کے حق میں معروضی دلائل پیش کرنا سیاسی جماعت کے لیے اتنا ہی لازم کرنا ہو گا جتنا انتخابی عمل سے جڑی کوئی بھی اور ضرورت ہو سکتی ہے۔
یہ فطری قانون ہے کہ اپنے کل کو بہتر بنانے کے لیے آج کو درست کرنا ہوتا ہے۔ ملک کی سمت بہتر کرنی ہے؟ اسے حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست بنانا ہے تو ووٹ کی قوت کا ادراک کرنا ہو گا۔ کسی کے حق میں رائے دیتے وقت اس کے کردار اور منشور کو پہلی ترجیح ماننا ہو گا۔ کردار اور پروگرام کے بجائے نسلی و گروہی وابستگی، زبان یا رنگ و نسل کی بنیاد پر کسی کے حق میں اپنی رائے دینے کو جرم ماننا ہو گا۔
یہ سب اس یقین کے ساتھ کرنا ہو گا کہ قوموں کی بہتری کی منزل اسی وقت آتی ہے جب اس کے افراد خود کو بہتر کرنے پر کمر بستہ ہوں۔ یکسو ہونا ہو گا کہ بہتری کا یہ سفر صرف نعروں، دعووں، وعدوں یا بھان متی کے کنبے جوڑنے سے نہیں بلکہ اخلاقی قدروں کی بنیاد پر طے کیا جاتا ہے۔ ان قدروں کو پروان چڑھائے بغیر روشن سویرے کی امید ’ڈے ڈریمنگ‘ کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔