لاہوری ڈائری – الیکشن اسٹنٹ مگر ن لیگ کی کامیابی

Minar-e-Pakistan-Lahore

بدھ کی شام وزیر اعلی پنجاب اور مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہباز شریف نے اورنج لائن ٹرین کا افتتاح کردیا ا س موقع پر جہاں انھوں نے ٹرین کی سیر کی وہیں ایک دھوں دھار سیاسی تقریر بھی کر ڈالی۔

اورنج لائن پراجیکٹ میں کام تو بہرحال ابھی مکمل نہیں ہو سکا مگر آزمائشی طور پر اس ٹرین کو چلا دیا گیا جو ایک الیکشن اسٹنٹ ہی سہی مگر مسلم لیگ نواز کی ایک بڑی کامیابی ہے۔

میاں شہباز شریف نے جہاں منصوبے میں 22 ماہ تاخیر کی زمہ داری پی ٹی آئی پر ڈالی وہیں اس بات کا دعوی بھی کیا کہ انھوں نے اس پراجیکٹ میں 75 ارب روپے کی بچت کی ہے۔ اس میں کتنی سچائی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم ماہرین معاشیات کے مطابق اورنچ لائن ٹرین پر 162 ارب لاگت کے حکومتی دعووں کے برعکس کئی گنا زیادہ رقم خرچ ہوئی ہے، اپوزیشن بھی اس پراجیکٹ کو 250 ارب کا بتاتی ہے۔

شہباز شریف کی تقریرمیں کئی بار لاہوریوں سے وعدہ لیا گیا کہ وہ 2018 کے الیکشن میں اورنج لائن ٹرین کی بناء پر مسلم لیگ نواز کو ہی ووٹ دیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2013 کے الیکشن میں مسلم لیگ نواز کو میٹرو بس پراجیکٹ کی بناء پر لاہور میں کافی مظبوط بنیاد ملی تھی، اسی بناء پر موجودہ دور حکومت میں ملتان اور راولپنڈی میٹرو کے منصوبوں کو پایہ تکیمل تک پہنچایا گیا۔

شہباز شریف نے اپنی تقریر میں جہاں حسب معمول بیوروکریسی کو اس کا کریڈٹ دیا وہیں وہ اپنے انتہائی قریبی افسر، کرپشن اور آمدن سے زائد اثاثہ جات میں نیب کے زیر حراست بیوروکریٹ احد خان چیمہ کو بھی نہیں بھولے اور انھیں بھی اس کا کریڈٹ دے ڈالا۔ یہ یقننا ایک بہت واضح اور کھلا پیغام تھا نیب کے لیے جس نے پنجاب میں کرپشن کے الزامات کے تحت متعدد تحقیقات شروع کر رکھی ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب آج سے کچھ عرصہ قبل نیب نے پنجاب پاور کمپنی کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرنے والے احد چیمہ کو ان کے دفتر سے حراست میں لیا تو بیوروکریسی نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔ بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کیا مگر کچھ روز بعد ہی نیب کی جانب سے جب احد چیمہ کی آمدن سے زائد جائیداد کی تفصیلات سامنے آنا شروع ہوئیں تو جھاگ کی طرح بیوروکریسی کا یہ احتجاج بھی ٹھنڈا ہونا شروع ہو گیا۔ بیوروکریسی کی اکثریت نے احد چیمہ کی گرفتاری کے بعد نیب کے ڈرسے حکومت کے متعدد غیر ضروری اور مبینہ طور پر ناجائز کام کرنے سے معذرت کرتے ہوئے سی ایم سیکرٹریٹ سے تحریری احکامات کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔

وزیر اعلی پنجاب کی طرف سے عوامی اجتماع میں احد چیمہ کی حمایت میں بیان کے بعد ایک سیدھا اور کھرا پیغام بیوروکرسی کو ملا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب ان بیوروکریٹس کے ساتھ کھڑے ہیں جو ان کے احکامات بجا لاتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں احد چیمہ کیس کا فیصلہ بہت سے چیزوں کو کلیئر کرےے گا کیوں کہ ان کے متعدد مبینہ ناجائز کاموں میں ساتھ نبھانے والے دو اعلی سرکاری افسران نے نیب کی تفتیش میں وعدہ معاف سرکاری گواہ بن کر بہت سے رازوں سے پردہ چاک کر دیا ہے۔

کچھ مختصر بات سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے حالیہ بیانات کی جس نے ایک نیا پنڈورا بکس کھول کر رکھ دیا ہے۔ پہلے پہل تو نواز لیگ کے رہنماء اس کا سارا ملبہ انٹرویو پر ڈالتے رہے کہ توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے، مگر جب خود ہی میاں نواز شریف نے اس کی تصدیق کردی تو اب ایک چپ کا سا عالم ہے۔ جس بھی مسلم لیگی لیڈر سے بات کرو وہ یہی کہتا ہے کہ ہمیں تو خود سمجھ نہیں آ رہی کہ پارٹی پالیسی ہے کیا؟

ن لیگیوں کا ایک نیا امتحان جاری ہے اور پارٹی میں اضطراب کی کیفیت ہے جسے تجزیہ کار خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ دن بدن پارٹی کے منتخب ایم این ایز اور ایم پی ایز کے بارے میں اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ وہ یا تو الگ ہو چکے یا الگ ہو رہے ہیں۔ ان افراد کی اکثریت پی ٹی آئی کےساتھ شامل ہو رہی ہے۔

صوبہ جنوبی پنجاب محاذ بننے اور اس کے پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے قبل اور بعد میں وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے قومی و صوبائی ارکان اسمبلی سے ملاقاتوں میں کافی تیزی رہی۔ ان میں ایسے اراکین بھی شامل تھے جنہیں شاید موجودہ حکومت کے پورے عرصہ میں وزیراعلی سے شرف ملاقات نہیں بخشا گیا تھا۔ معاملہ ملاقاتوں تک ہی نہیں رہا بلکہ اس دوران انہیں مسائل حل کروانے کی یقین دہانیاں بھی کرائی گئیں۔

دوسری جانب جنوبی پنجاب محاذ کے ممبران کی اکثریت جب پیپلز پارٹی میں شامل نہیں ہوئی تو پی پی پی نے ایک اچھا قدم اٹھاتے ہوئے ان کے مقابلے میں ایک نیا اتحاد قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اتحاد میں جنوبی پنجاب محاذ کے اراکین کے مخالفین کو لینے کا سلسلہ جاری ہے۔ خدشہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی اس کوشش کا نقصان بھی ن لیگ کو ہی ہو گا۔

بات ہو جائے ایم ایم اے کے جلسے کی تو لاہور میں ان کا یہ ایک بہتر آغاز تھا۔ عوامی شو کے دوران مجلس عمل کے پرجوش ورکرز موجود رہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بات پھر وہیں پر آکر ٹھہر جاتی ہے جو میں نے پی ٹی آئی کے لاہور جلسے کے حوالے سے کی تھی کہ اگر خیبرپختونخوا سے ہی ورکرز لانے تھے تو لاہور میں جلسے کی ضرورت کیا تھی، وہیں کے پی میں ہی کر لیتے، خوامخواہ لاہوریوں کو تنگ کیا۔

ایم ایم اے کے جلسے میں جہاں پی ٹی آئی کے سیاسی حریف جے یو آئی ایف کے مولانا فضل الرحمان نے تیر برسائے وہیں پرتقریبا 5 سال کے پی حکومت میں شریک رہنے والے جماعت اسلامی کے سربراہ سینیٹر سراج الحق نے بھی سابقہ اتحادی پر تنقید کی، اس سے یہ بات صاف ہو گئی کہ دونوں جماعتیں اب کم از کم آئندہ الیکشن میں تو سیاسی حریف بنیں گی۔ مگر جماعت اسلامی یا ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے پی ایم ایل این سے کہیں نا کہیں سیٹ ایڈجسمنٹ کر کے پنجاب اور لاہور میں اپنے رہنماؤں کو ایڈجسٹ کروایا جائے گا، جو ایک اچھا سیاسی فیصلہ ہے۔ شاید اسی بہانے جماعت اسلامی کی واحد صوبائی اسمبلی کی سیٹ جو میرے خیال میں شخصی تھی کو ہی بچایا جا سکے اور ضمنی الیکشن کی طرح کم از کم ووٹوں کے تناسب کو بہتر کیا جا سکے۔

اس ہفتہ کی ڈائری میں بس یہیں تک اگلے ہفتے مزید حاضر ہوں گے کچھ مزید سیاسی حقیقتوں کے ساتھ تب تک سلام لاہور۔

ٹاپ اسٹوریز