لاہوری ڈائری

پی ٹی آئی، جماعت اسلامی میں اعلی سطحی رابطہ | urduhumnews.wpengine.com

29 اپریل کو پاکستان تحریک انصاف کے جلسے کے بعد جہاں سیاسی پنڈت اپنی مختلف پیش گوئیوں میں مصروف ہیں وہیں صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ کے پی ٹی آئی خواتین کے بارے میں ریمارکس نے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔

دیرآید درست آید کے مصداق حکومت پنجاب کے بڑوں کی معذرت پر رانا ثناء کو بھی اپنا معذرتی ویڈیو بیان جاری کرنا پڑا جسے ان کی اپنی جماعت کی متعدد خواتین سمیت تمام تراپوزیشن نے بھی ماننے سے انکار کردیا اور ان کے فوری استعفی کا پرزور مطالبہ کردیا۔ اس کے آثار تو بہرحال نظر نہیں آ رہے مگررانا ثناء اللہ کو ٹف ٹائم ضرور ملا ہے اور ایسا عموماً کم ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک تگڑا وزیر اپنا بیان واپس لیتے ہوئے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرے۔

بہرحال میری ذاتی رائے میں سیاسی لیڈروں، خاص طور پر حکومتی وزراء کو، اس طرح کے بیانات داغنے سے گریز ہی کرنا چاہیے۔

اب کچھ مختصربات ہو جائے پی ٹی آئی لاہور جلسے کی۔ اس میں تو اب کوئی دو رائے نہیں کہ یہ پی ٹی آئی کے بڑے جلسوں میں سے ایک تھا۔ بحیثیت لاہوری میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے اس جلسے کے بارے میں دیے گئے تین جملوں میں سے پہلے دو (جلسہ لاہور دا، بندہ پشور دا) سے تو کسی حد تک اتفاق کرتا ہوں مگر تیسرے جملے (ایجنڈا کسے ہور دا) کے بارے میں بات کرتے ہوئے میرے پر جلتے ہیں۔

اس جلسے میں شامل مردوں کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے نہیں تھا اور اپنے ارد گرد کے حلقہ احباب میں پی ٹی آئی کے میرے جاننے والے جتنے بھی بڑے تگڑے کھلاڑی ہیں، انھوں نے جانی انجانی وجوہات کی بناء پراس جلسے میں جانے سے اجتناب ہی کیا۔ بہرحال اس کے باوجود یہ ایک بڑا اور کامیاب شو تھا جس نے پی ایم ایل این کے گڑھ لاہورمیں ایک بار پھر نون لیگیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس کا واضح ثبوت 29 اپریل کو دیکھنے میں بھی آیا جب لاہور باقاعدہ طور پر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ مسلم لیگ نواز نے جہاں جاتی عمراء میں اہم سیاسی اجلاس کیا وہیں آصف زرداری بھی لاہوربلاول ہاؤس میں اہم ملاقاتیں کرتے رہے۔ سراج الحق نے بھی ایک اجلاس سے خطاب فرمایا۔ چوہدری برادران بھی لاہور میں ہی براجمان رہے جب کہ چیف جسٹس صاحب بھی سپریم کورٹ لاہوررجسٹری میں اہم کیسز کی سماعت کرتے رہے۔

صدرملکت ممنون حسین نے بھی نارووال میں ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کے لیے لاہور سے ہی سفرکیا۔ ہماری ایک ہفتہ وار چھٹی بس اس دن سیاست کی نظر ہو گئی اور ہم بڑی وکٹ گرنے کے دعووں کا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔

جہاں لاہور میں اس وقت سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں وہیں صوبہ جنوبی پنجاب محاذ بھی بہت سرگرم ہے۔ استعفوں کا اعلان تو بہت پہلے کر چکے مگر واللہ عالم کہ دیتے کیوں نہیں۔ اور تو اور پنجاب اسمبلی کے جاری اجلاس میں ان کے کچھ ممبران پنجاب اسمبلی حاضریاں بھی باقاعدگی سے لگا رہے ہیں کہ کہیں جانے انجانے میں کچھ الاؤنسز کٹ نہ جائیں۔ بہرحال اس تحریک کا سب سے بڑا فائدہ پی ٹی آئی کو ہوا ہے اور اس میں شامل اراکین کی اکثریت پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلے پر لڑنے کے لیے تیار ہے۔ کچھ نا کچھ اس کا فائدہ مفاہمت کے بادشاہ بھی اٹھائیں گے جس کے لیے انھوں نے جنوبی پنجاب کی اہم شخصیت اورسابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کو ٹاسک دے رکھا ہے۔

یہ سوال اکثر بہت پریشان کرتا ہے کہ یہ صوبہ جنوبی پنجاب محاذ کی کیسی تحریک ہے جس کا آغاز جنوبی پنجاب کی بجائے لاہور بیٹھ کر نا صرف کیا گیا بلکہ یہ زورو شورسے جاری بھی ہے۔

ہماری تو تحریک کے کرتا دھرتا سیاست دانوں سے صرف یہی گزارش ہے کہ اس کو جنوبی پنجاب تک بھی پھیلائیں یا کم از کم لے کر جائیں تاکہ وہاں کے لوگوں کے احساس محرومی کا جو نعرہ آپ بلند کر رہے ہیں اس کا کچھ نا کچھ جواز فراہم ہو سکے۔ جسے آپ کو ملنا ہوگا یا ساتھ شامل کرنا ہوگا وہ ملتان یا بہاولپور آ کر بھی آپ کو ملے گا۔

قصہ مختصر یہ کہ لاہور ڈائری کا آغاز سیاسی سرگرمیوں سے ہی ہوا مگر یہ مت سمجھیں کہ لاہور میں کچھ اورہوا نہیں یا ہوتا نہیں ہے۔ آئندہ ہفتہ کی ڈائری میں ہم لاہورکے دیگر رنگوں سے آپ کو روشناس کراتے ہوئے کئی پردے بھی چاک کریں گے۔ تب تک کے لیے سلام لاہور۔

ٹاپ اسٹوریز