عورت کمزور نہیں ہوتی

عورت کمزور نہیں ہوتی

خواتین کی تعریف کے لیےاکثرعلامہ اقبال کےشعر کا مصرعہ استعمال کیا جاتاہے کہ ‘وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ’ ۔ میری نظر میں دیکھیں تو  یہ غلط بھی نہیں کیونکہ واقعی اگر کائنات میں رنگ ہے تو وہ عورت کے وجود سے ہی ہے۔

عورت ہی ہے جو مکان کوگھر میں تبدیل کرتی ہے۔  عورت ہی ہوتی ہے جو اپنوں کے لیے بڑی سے بڑی مصیبت کا سامنا کرنے سے بھی نہیں گھبراتی۔ایک جانب عورت پتھر کی طرح مضبوط  ہے تو دوسری جانب کسی باریک دھاگے کی طرح نرم و ملوک بھی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں عورت کو بہت کمزور اور نازک سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عورت ایک ماں ،ایک بیٹی، بہن اور ایک بیوی کے روپ میں ساری زندگی سمجھوتوں اور قربانیوں کی نذر کرددیتی ہے۔

لیکن اگر عورت کی زندگی کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو وہ مرد کے  مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط اعصاب کی مالک ہوتی ہے لیکن خود کو معاشرے کی نام نہاد رسموں میں بندھ کر رکھتی ہے۔

عورت کی  حیثیت کو ہر کوئی مانتا اور جانتا ہے اور اسی لیے ہر برس آٹھ مارچ کو عالمی سطح پر عورت کی حیثیت اجاگر کرنے کے لیے دنیا بھر میں عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے۔

آج آٹھ مارچ 2019 ہے اور آج بھی ہر برس کی طرح دنیا بھر میں خواتین کے لیے تقاریب جاری ہیں لیکن میرے خیال سے خواتین قدرت کا وہ انمول تحفہ ہیں جن کے لیے ہر روز بھی خصوصی دن منایا جائے تو وہ کم ہوگا۔

آج کے دن ہر ملک میں اپنے ملک و قوم کا نام روشن کرنے والی خواتین کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں لیکن کچھ خواتین وہ بھی ہیں جو دنیا کے سامنے تو نہیں آپاتیں لیکن  اپنی بقا کی جنگ اکیلے ہی لڑتی ہیں۔

 سماعت سے متاثرہ بیٹی کی باہمت ماں سب کے لیے مثال

ہم بھی آج آپ کو ایک ایسی ہی خاتون سے ملوا رہے ہیں جنھوں نے اپنے سماعت سے متاثرہ بیٹی کی خاطر نا صرف اپنا گھر چھوڑا بلکہ اپنا شہر بھی چھوڑ دیا اور یہاں تک کے اس کے شوہر نے بھی ساتھ چھوڑ دیا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔

ہماری ان سے ملاقات سماعت کی کمی سے متاثرہ بچوں کے ایک اسکول میں ہوئی۔ وہ چپ چاپ ہی اپنے کام میں  مگن تھیں پھر یونہی میری ان سے بات چیت شروع ہوئی اور انہوں نے اپنی پوری کہانی کہہ ڈالی۔

حسینہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایک ایسا گاؤں جہاں عورت کو نہ عزت دی جاتی ہے اور نہ ہی اسے انسان سمجھا جاتا ہے۔

حسینہ کی چھوٹی عمر میں ہی شادی ہوگئی لیکن اس کا شوہر ناصرف کام چور بلکہ ظالم انسان بھی تھا۔ بیٹی کی پیدائشی کے بعد اس کا رویہ اور خراب ہوگیا۔ حسینہ روایتی خواتین کی طرح تمام ظلم برداشت کرتی رہی۔

مسائل میں اس وقت اضافہ ہوا حسینہ کی بیٹی حفضہ چار برس کی ہوئی اور اس پر اس بات کا انکشاف ہوا کے وہ سماعت سے محروم ہے۔ اس کے شوہر نے بیٹی کا علاج کرانے سے صاف انکار کردیا اور کہہ دیا کہ اس کا کچھ نہیں ہوسکتا۔ محلے والوں اور رشتےداروں  کی جانب سے اس کی بچی کو پاگل کے لقب دیئے جانے لگے اور سب کہتے کے یہ کبھی نہیں بولے گی۔

اب حسینہ کے پاس دو راستے تھے یا تو اپنی بیٹی کے لیے پوری برداری سے بغاوت کرتی اور شہر جاکر اس کا علاج کراتی یا حالات سے سمجھوتہ کر کے اپنی بیٹی کی زندگی تباہ ہونے دیتی۔

پہلا راستہ حسینہ کے لیے کافی کھٹن اور دشوار گزار تھا کیونکہ وہ نہ تو پڑھی لکھی تھی اور نہ ہی اسے کوئی خاص ہنر آتا ہے لیکن پھر بھی اس نے پہلے ہی راستے کا انتخاب کیا اور اکیلے ہی کراچی جانے کا فیصلہ کیا اس کا یہ فیصلہ بہت مشکل تھا اور اس کے شوہر کے رویے نے اسے اور مشکل بنا دیا۔

حسینہ کے والدین کے اصرار پر اس کا شوہر اس کے ساتھ کراچی تو آیا لیکن اس کی زندگی اجیرن بنا دی اسے مارنا، چلانا اور نشہ کرنا بس یہ تین کام تھے جو اس کے شوہر کو آتے تھے لیکن حسینہ سب برداشت کرتی رہی کے کسی طرح اس کی بیٹی کا علاج ہوجائے۔ ایک اور ستم اس پر جب ٹوٹا جب اس کے شوہر نے اسے چھوڑ کر دوسری شادی کرلی اور اس سے لاتعلق ہوگیا۔

اب اس عورت کے لیے حالات مزید مشکل ہوگئے نہ رہنے کے لیے مناسب چھت نہ ہی مناسب نوکری۔ سب کچھ ناممکن دکھائی دینے لگا لیکن پھر قدرت کو جیسے اس پر رحم آگیا اور بہت کوشش کے بعد وہ ایک ایسے اسکول میں نوکری حاصل کر نے میں کامیاب ہوئی جہا ں سماعت سے محروم یا سماعت کی کمی کا شکار بچوں کو بولنے اور عام انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کی تربیت دی جاتی تھی۔ یہاں اس کی بچی کا علاج شروع ہوا اور آج وہ اسی نویں جماعت کی طلبہ ہے اور بول چال بھی کرتی ہے۔

لیکن اس عورت کی مشکلات کا سفر یہاں ہی تمام نہیں ہوا بلکہ اس کا شوہر ایک دم واپس آیا اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا۔ حسینہ کی زندگی کا سکون پھر غارت ہونے لگا لیکن اب اس نے مزید ہمت دکھائی اور قانونی اداروں کا سہارا لیا اور اپنے شوہر سے علحیدگی اختیار کرکے اکیلے ہی اپنی بچی کے ساتھ الگ ایک چھوٹے سے کرایئے کے کمرے میں رہنے لگی۔

آج وہ اور اس کی بچی  اپنی زندگی سکون سے  بسر کررہے ہیں اور اب وہ اتنی باہمت ہوچکی ہے کہ اس کا شوہر اس کی طرف آنے کی ہمت بھی نہیں کر پاتا۔

یہ کہانی بتانے کا مقصد یہ تھا  کہ عورت کی اپنی شناخت اور اپنی پہچان ہے، اگر وہ ایک بار ٹھان لے کے اسے کسی مرد کے سہارے کی ضرورت نہیں تو وہ اکیلے ہر کام کرسکتی ہے۔ جہاں عزت نہ ہو وہاں کوئی بھی عورت سمجھوتہ نہیں کرسکتی اور ایسا ہی حسینہ نے کیا۔

افسوس ہمارے معاشرے میں خواتین عزت سے زیادہ غلامی اور سمجھوتوں کو ترجیح دیتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو کمزور سمجھا جاتا ہے لیکن حسینہ جیسے خواتین تمام عورتوں کے لیے زندہ مثال ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز