دنیا بھر میں فنکاروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی حساس ہوتے ہیں، چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی ان کو متاثر کرتی ہیں۔
لیکن پاکستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ہماری آبادی کا بڑا حصہ دنیا کے بڑے بڑے مہذب اور حساس فنکاروں سے کہیں زیادہ حساس ہے۔
مجھے اس چیز کا احساس پی ایس ایل کی تقریب رونمائی کے بعد ہوا۔
سلام ہے کہ ان سب حساس پاکستانیوں کو جنھوں نے پی ایس ایل کی میزبانی اور گانے کے معاملے پر مایوسی کا اظہار کیا۔
سماجی رابطوں کی سائٹس پر پاکستانیوں کے تبصرے اور جذبات پڑھ کر سر فخر سے بلند ہو گیا، ایسا لگا کہ پوری قوم ایک حساس آرٹسٹ کی مانند یک زبان ہو گئی ہے۔
لیکن پھر ذہن میں یہ سوال اور خواہش آئی کہ کاش ہم دیگر معمولات میں بھی اتنے حساس ہوں۔ ہر جگہ کچرا ہمارے اندر کے آرٹسٹ کو کیوں متاثر نہیں کرتا؟ ہمارے “دانشوروں” کو غلط پارکنگ، سگریٹ کا کش لگا کر اسے زمین پر پھینکنے جیسی چیزوں پر کیوں اعتراض نہیں ہوتا؟ پشاور سے کراچی کا سفر کرلیں تو ہر پبلک ٹوائلٹ میں آپ کو ہمارا مہذب پن نظر آئے جائے گا۔
لیکن بات صرف دانشوروں تک محدود نہیں ہے، اگر ہم اپنا کردار دیکھیں تو یہ نظر آتا ہے کہ ہزاروں کا کھانا کھا لیں گے لیکن ہوٹل کے باہر کھڑے بچے کو دس روپے دیتے ہوئے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔
ہم اتنے حساس ہیں کہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے غریبوں کے بچوں کو گھروں میں ملازم رکھ لیتے ہیں۔ لاکھوں کی آبادی والا پورا شہر گھوم لیں کوئی شخص آپ کو مسکرا کر نہیں دیکھے گا۔ ہر اشارے پر بھیک مانگتے بچے دیکھ کر اندر کا فنکار نہیں جاگتا۔
خواتین کے حقوق کی علمبردار ہماری “فیمنسٹ” لاکھوں کا جوڑا پہن کر گھر میں چند ہزار ماہانہ پر رکھی ملازمہ سے پوچھ رہی ہوتی ہیں کہ ’’میں کیسی لگ رہی ہوں‘‘، ہمارے گھریلو ملازمین جن کے اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی مشکل سے نصیب ہوتی ہے، ان سے ہم اپنے بچوں کے پسندیدہ کھانے بنواتے ہیں۔۔۔
ہمارے صحافت کے ارسطو جو حکمرانوں کے محدود ویژن پر تنقید کرتے ہیں، لیکن جب حکمران ان سے مشورہ مانگیں تو ان کا اپنا ویژن اپنے علاقے کے معمولی مسائل حل کرنے تک محدود ہو جاتا ہے۔
جن کے گھروں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جبری مشقت کا شکار بچے بازیاب کرانا پڑتے ہیں وہ حساس لوگ ٹی وی پر بیٹھ کر کشمیر کے بچوں کے حقوق کی جنگ لڑتے ہیں۔
سب کے دکھوں کا احساس کرنے والا ہمارا میڈیا، اتنا حساس ہو گیا ہے کہ وہ بھوک و افلاس سے مرنے والے اپنے ہی ساتھیوں کی کہانی بھی دنیا کو بتانے کو تیار نہیں کیونکہ وہ پریشانیوں کی شکار قوم کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا۔
فہرست بہت طویل ہے ہماری حساسیت کی۔۔۔۔