ایک وقت تھا جب کراچی میں پڑنے والی ہلکی ہلکی پھوار کے موسم کو لوگ مری کے موسم سے تشبیہ دیتے تھے، حبس نام کی چیز کراچی میں نہیں ہوا کرتی تھی، مئی جون اور نصف جولائی پھوار پڑا کرتی تھی، اگست ستمبر مینہہ برستا تھا، اکتوبر کا موسم دن کچھ اور رات کچھ ہوتا تھا اور لوگ اسے حبس کہتے تھے۔ اس کے بعد کڑاکے کر سردی پڑا کرتی تھی جو فروری تک رہتی تھی اور پھر بہارکا جوبن۔
یہ تھا کراچی۔ساٹھ ساٹھ اور ایک سو بیس فٹ چوڑی سڑکیں دھلا کرتی تھیں، شہر کئی گنا زیادہ وسعت پاگیا لیکن اس کی خوبصورتی، اس کی رنگینی اور موسمی بہاروں کو جیسے کوئی عفریت کھا گیا۔ اس وقت کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور دنیا کے چند بڑے شہروں میں سے ایک ہے،لیکن آج یہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی بن گیا۔ جہاں موسم بہار اور بارش میں پھولوں اور زمین کی خوشبو معطر کرتی تھی آج وہاں تعفن کا ڈیرا ہے، کراچی دنیا کا وہ خوش نصیب شہر ہے جس میں دو بڑی برساتی ندیاں لیاری اور ملیر ندی بہتی ہیں اور جہاں بارہ سے زائد بڑے برساتی نالے ہیں، چھوٹے چھوٹے نالوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں، قدرت کا اس سے بڑا تحفہ اور کیا ہوگا کہ بارش بھی ہو اور اس کا پانی جمع رکھنے کے لیے ندیاں اور نالے بھی ہوں۔
جہاں تک کچرا ٹھکانے لگانے کا تعلق ہے تو دنیا اس سے توانائی پیدا کر رہی ہےز مختلف ممالک دوسرے ملکوں سے کچرا خرید رہے ہیں، پاکستان میں بھی لوگ نجی اور سرکاری طور پر اس کا مثبت استعمال کر رہے ہیں، اس اعتبار سے کچرا اٹھانے کا تو کوئی مسئلہ ہونا ہی نہیں چاہیے لیکن اس خوبصورت اور خوش نصیب شہر کو ہمارے حکمرانوں نے بدصورتی اور بدنصیبی میں تبدیل کردیا ہے۔بلاشبہ کراچی سونے کا انڈا دینے والی مرغی تھی، اس کے روز ایک انڈے سے نہ صرف اہل کراچی بلکہ پورا پاکستان مستفید ہوتا تھا، اس ایک انڈے کی برکت بھی تھی اور قدرت کا ایک نظام بھی تھا کہ روز ایک ہی انڈا مل سکتا ہے لیکن عاقبت نا اندیشوں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ملک دشمنوں نے اس کا پیٹ چاک کرکے سارے انڈے نکالنے کی کوشش کی، نتیجے میں قدرت کا نظام ٹوٹ گیا اور جو ایک انڈا مل رہا تھا وہ بھی ملنا بند ہو گیا، وہ ضرورت مند جن کو کراچی پال رہا تھا وہ بے یارو مددگار ہوگئے، ان کو کھانے کے لالے پڑ گئے افسوس یہ کہ پیٹ چاک کرنے والے یہیں نہیں رکے بلکہ اس کی باقیات کو بھی نہیں چھوڑ رہے۔
بارش کے پانی کا نکاس، کچرے کے ڈھیر، پانی کی نایابی، گٹروں کا ابلنا، ناجائز تجاوزات، ٹریفک جام، راہزنی، موبائل چھینے جانا جیسے مسائل پہلے بھی تھے لیکن اب یہ حل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی کا پیٹ چاک کر دیا ہے،کراچی میں ساری زمین ایک بار نہیں کئی کئی بار بیچی جاچکی ہے، ہائڈرینٹ پر قبضہ ہے، پانی لوگ خریدتے ہیں، پہلے تھانے نیلام ہوتے سنا تھا اب سڑکیں نیلام ہوتی ہیں، ساٹھ فٹ چوڑی سڑک گاڑیوں کے لیے صرف دس فٹ رہ جاتی ہے، ٹریفک کا نظام بہتر بنانے کے ذمہ داران اپنے حقیقی کام کے سوا سب کچھ کرتے ہیںز کہتے ہیں وہ پوسٹنگ لے کر آئے ہیں۔
کراچی کے محاصل حکومت کے خزانے میں جانے کے بجائے چند لوگوں کی جیبوں میں چلے گئے، یوں شہر کی صفائی ستھرائی یہاں تک کہ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضرورتیں ناپید ہوتی جارہی ہیں، ناجائز تجاوزات کے باعث قدرتی ندی نالوں کے راستے بند ہوگئے اور کچرے سے متعلق پالیسی نہ ہونے کے باعث سڑکیں کچرا ڈپوز میں تبدیل ہوگئیں ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فوجی حکومتوں کے دور میں بلدیاتی اداروں نے بہت کام کیا جس سے عوام کو کافی سہولتیں حاصل ہوئیں لیکن بدقسمتی سے سیاسی حکومتوں کے دور میں ان بنیادی جمہوریتوں کا گلا گھونٹا گیا اور لوٹ مار کی انتہا کر دی گئی۔
کراچی کا منی پاکستان بننے اور ہونے کا تصوّر گزشتہ دس سالوں میں ختم ہو گیا، اس کے اس تشخص کو ختم کرنے میں وہ تمام قوتیں شامل رہی ہیں جو کسی نہ کسی طرح اس کی انتظامی اور امن و امان کی ذمہ دار رہی ہیں، گزشتہ دس سالوں میں ان تمام قوانین کو جو نظام حکومت کا توازن برقرار رکھتے تھے، بالائے طاق رکھ دیا گیا، سرکاری ضابطوں اور قوانین کو ذاتی مفادات کے تحت تبدیل کر کے بادشاہت والا نظام نافذ کردیا گیا۔ ایک شخص کی زبان سے جو فرمان جاری ہوتا ہے نافذ ہو جاتا ہے۔
کہنےکو تو وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی حکومتیں کراچی کی اسٹیک ہولڈر بنی ہوئی ہیں۔ تین حکومتوں کے باوجود عوام مسلسل پس ماندگی کی دلدل میں پھنستے جارہے ہیں، یہ تینوں حکومتیں ایک دوسرے پر الزام لگانے میں بڑی تیزی کا مظاہرہ کرتی ہیں، اگر یہی حکومتیں دس فیصد تیزی مسائل کے حل میں دکھائیں تو شہر بہتری کی طرف گامزن ہو سکتا ہے۔
کہنے کو تو تین تین حکومتیں مصروف عمل ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ راج صرف صوبائی حکومت کا ہے، اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق کو تو یہ کہنے کا حق مل گیا کہ وہ صوبائی معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتا لیکن صوبے سے نیچے بلدیاتی سطح پر اختیارات منتقل نہ ہونے کے باعث میئر کراچی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کا مقصد اختیارات کا ارتکاز ختم کرکے ان کی تقسیم تھا نہ کہ اختیارات کا ارتکاز ایک سے دوسرے کو منتقل کرنا، سندھ میں تقریباّ یہی ہوا ہے۔ سارے اختیارات صوبائی حکومت کے پاس مرتکز کردیے گئے ہیں یہاں تک کہ شہری حکومتوں کے کے اختیارات بھی صوبائی حکومت نے لے لیے ہیں۔ سارے شہری اداروں کو صوبائی اداروں میں بدل دیا گیا ہے، پیپلز پارٹی کی حکومت جس اٹھارویں ترمیم کا کریڈٹ لیتے ہوئے کہتی ہے کہ اس نے مرکزیت ختم کرکے عوام کو شامل اقتدار کیا وہیں پیپلز پارٹی نے سندھ میں اختیارات کی مرکزیت قائم کرکے عوام کو اقتدار سے بیدخل کردیا ہے، آج کراچی کا المیہ یہی ہے۔