سوال یہ بھی ہے

آج کل ہر دوسری بات پر بہت سے لوگ ایک ہی سوال کرتے نظر آتے ہیں، ’کیا یہ ہے نیا پاکستان؟‘ بجلی چلی جائے تو یہ سوال، کوئی اغوا ہوجائے تو یہی سوال، ٹریفک جام ہو تو یہ سوال، مہنگائی بڑھ جائے تو یہی سوال۔

لیکن جب لوگ بار بار یہ سوال پوچھتے ہیں تو میرے ذہن میں بھی ایک سوال اُبھرتا ہے، ”کیا یہ سوال کرنے والے پاکستان میں نئے آئے ہیں؟ یا پھر دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں؟

ہم لوگ کیسے بھول گئے کہ یہ ملک گزشتہ 70 سال سے کس انداز میں چل رہا تھا اور اسکے مسائل کیا تھے؟ خیر یہ تو ایک لمبی چوڑی بحث ہے، لیکن پچھلے چند دن سے جس طرح ساہیوال کے افسوسناک سانحہ پر تبصرے ہو رہے ہیں، وہ خود قابل بحث ہے۔

چند سیاستدان اور صحافی، سانحہ ساہیوال ۔۔ جس میں پولیس کی فائرنگ سے چار افراد بشمول ایک 13سالہ بچی جاں بحق ہوئے – کا موازنہ  2014  کے ماڈل ٹاؤن سانحہ سے کررہے ہیں اور یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ایسی ہوگی وہ ریاست مدینہ جس کا خواب وزیراعظم عمران خان نے دکھایا تھا؟

عمران خان نے ریاست مدینہ کے طرز پہ پاکستان کو چلانے کا خواب ضرور دیکھا، لیکن کیا ریاست مدینہ ایک ہی دن میں بن گئی تھی؟ جی نہیں۔

اس ریاست مدینہ کو بننے میں بھی بڑی قربانیاں دی گئیں اور کئی سال لگے، بڑی مخالفتیں سہی گئیں اور بڑی سختیاں برداشت کی گئیں۔ تب جاکر بنی تھی ریاست مدینہ۔

جو لوگ آج ریاست مدینہ کا خواب دیکھنے پر بار بار عمران خان کو طعنے دے رہے ہیں وہ  دراصل اس بات پر پریشان ہیں کہ اگر یہ ملک، ریاست مدینہ کے طرز پر چل نکلا تو اُن کا کیا بنےگا۔

ساہیوال سانحہ پھر یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ پولیس اہلکاروں میں تربیت اور نظم وضبط کا کس قدر فقدان ہے۔ چاہے ذیشان دہشت گرد ہو یا نہ ہو، گولی چلانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس مبینہ ملزم کو زندہ کیوں نہیں پکڑا جا سکتا تھا؟ کہا گیا کہ گاڑی کے شیشے سیاہ تھے اور کئی دنوں سے گاڑی اور ڈرائیور کا تعاقب کیا جا رہا تھا۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ٹریفک پولیس نے گاڑی روک کر شیشوں سے کالے اسٹیکر کیوں نہیں اتارے؟ یہ بھی ویسی ہی ایک کارروائی تھی جیسی گلوبٹ پولیس ہمیشہ سے کرتی آئی ہے۔

اہم ترین سوال آج یہ ہے کہ پاکستان کے مسائل کتنے سنگین ہیں اور کیا حکومت ان کو حل کرنے کے لئے سمت کا تعین کر پائی ہے؟ اور یہ سوال بھی اتنا ہی اہم ہے کہ موجودہ حکومت مسائل کا حل نکالنے میں کتنی سنجیدہ ہے؟

پاکستان تحریک انصاف جن نعروں پر انتخابات جیتی اُن میں سے اہم ترین نعرہ اور وعدہ اصلاحات کا ہے ۔۔۔ حکومت کے ہر شعبے میں اصلاحات، جن میں پولیس اصلاحات بھی شامل ہیں۔

عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ گزشتہ پانچ ماہ میں ان اصلاحات پرکیا کام ہوا؟

ناصر درانی جن کی سربراہی میں خیبرپختونخوا پولیس میں اصلاحات ممکن ہوئیں اور اس محکمے کو سیاسی مداخلت سے پاک کیا گیا، وہی ناصر درانی پنجاب پولیس ریفارمز کمیشن کی سربراہی سے کیوں دست بردار ہو گئے؟ اور آخر ان کا متبادل تلاش کرنے میں اس قدر سستی کا مظاہرہ کیوں کیا گیا؟ مانا کہ حکومت اس وقت کئی محاذوں پر برسرپیکار ہے اور اسکے سامنے ایک سے ایک بڑھ کر گمبھیر مسئلہ ہے، لیکن عرض یہ ہے کہ قوم کی نظریں وزیر اعظم عمران خان پہ مرکوز ہیں اور وہ ان سے بہترین سے کم کسی اور چیز کی توقع نہیں کرتے۔

حکومت کی جو ذمہ داری ہے وہ اس کو نبھانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن حزب اختلاف کی جماعتیں، جنہوں نے برسہا برس پاکستان پر حکومت کی، وہ اپنی خراب کارکردگی کا ملبہ بھی نئی حکومت پر ڈالنا چاہتی ہیں۔

پاکستان کے عظیم تر مفاد میں تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ اصلاحات کے معاملے پر حکومت کے ساتھ بیٹھیں اور قومی اتفاق رائے کے لئے کام کریں۔

اس وقت صرف تنقید سے کام نہیں چلے گا، بلکہ مسائل کے لئے تجاویز اور قانون سازی کی بھی ضرورت ہے۔ کیونکہ پولیس گردی کا شکار کوئی بھی کبھی بھی ہو سکتا ہے اور جو لوگ سانحہ ساہیوال کے ذمہ دار ہیں  انہیں بھی قانون کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔

ٹاپ اسٹوریز